کرسٹیان سینڈ میں سیان کے مظاہرے کے دوران ایک شخص رکاوٹوں کے پیچھے کھڑا پلے کارڈ اٹھایا ہوا ہے جس پر لکھا ہے 'قرآن پاک کو نذرآتش کرنے کی اجازت نہیں دیں گے'—فوٹو: کییا بلوچ
جمعے کی نماز کے دوران کرسٹیان سینڈ سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل گروہ، مقامی مسلمان برداری کے لیے اپنی حمایت اور ہمدردی کے اظہار کے لیے مسجد کے باہر جمع ہوا۔
انہوں نے موسم کی چیلنجنگ صورتحال، موسلا دھار بارش اور خون منجمد کرنے والے درجہ حرارت کو ناروے کے دیگر شہریوں کو یہ آگاہ کرنے کے لیے رکاوٹ نہ بننے دیا کہ مسلمان برادری کو مقامی افراد کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
مسجد کے باہر مسلمانوں کی حمایت میں موجود افراد نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز تھامے ہوئے تھے جن پر درج تھا 'ہم مختلف ہیں مگر اکٹھے ہیں'۔
فورم برائے یقین اور مذاکرات کی چیئرمین سولویگ سکارا نے کہا کہ 'ہم یہاں یہ بتانے کے لیے موجود ہیں کہ ہم مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں، وہ (سیان کے ارکان) شدت پسند ہیں اور ناروے میں اکثر افراد انہیں فالو نہیں کرتے'۔
خیال رہے کہ فورم برائے یقین اور مذاکرات کرسٹیان سینڈ میں مقیم مختلف برادریوں کے درمیان باہمی افہام و تفہیم اور احترام کو فروغ دینے سے متعلق کام کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم میں سے اکثر نے نہیں سوچا تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ناروے میں ہر شخص اپنا مذہب منتخب کرنے میں آزاد ہے، ہر کوئی اس پر عمل کرنے میں آزاد ہے لیکن بہت کم لوگ سوچتے ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے'۔
سولویگ سکارا نے کہا کہ 'یہ مسلمانوں کے لیے مشکل وقت ہے اور میں ان سے اپنی حمایت ظاہر کرنے کے لیے یہاں موجود ہوں'۔
ادھر اکمل علی نے مسجد کے باہر جمع گروہ کو خوش آمدید کہا اور کہا کہ جن لوگوں نے قرآن پاک کے نسخے کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی تھی وہ مسلمانوں کو اشتعال دلانا چاہتے تھے اور ان کا مقصد اسلام کا منفی تصور پیش کرنا تھا لیکن ہم ان کے بیانیے کو چیلنج کرنے کے لیے اکٹھے ہوگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اشتعال دلانے کے باوجود مسلمان صابر رہے اور وہ لوگ جنہوں نے کرسٹیان سینڈ کے لوگوں کے درمیان تفرقات پیدا کرنے کی کوشش کی وہ ناکام ہوگئے۔
واقعے کے بعد کرسٹیان سینڈ میں مسلمان یونین کے رہنما اپنے ساتھی مسلمانوں سے اسلامی تعلیمات کے مطابق پُرامن رہنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
کرسٹیان سینڈ کے مسلمان یونین کے سینیئر رہنما طلال عمر نے کہا کہ 'یہ واقعہ دیکھ کر میرا دل ٹوٹ گیا لیکن اسلام ہمیں مشتعل ہونے کی اجازت نہیں دیتا، ہم نے ایسا دوبارہ ہونے سے روکنے کے لیے تمام اقدامات اٹھائے ہیں، پولیس صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'کسی کو قانون اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اسلام ہمیں کسی پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا'۔
دوسری جانب مسلمان نوجوانوں کے ایک گروپ نے کرسٹیان سینڈ میں پولیس سے 'بہت مایوسی' کا اظہار کیا اور مظاہرے کی جگہ سے 5 مسلمانوں کو حراست میں لینے پر انتظامیہ پر تنقید کی۔
نوجوان لیڈر عمر حیدر کا کہنا تھا کہ 'جو کچھ ہوا اس سے ہم میں سے بہت لوگ متاثر ہوئے اور یہ بہت پریشان کن تھا، جو چیز وہ (مسلمان مخالف گروپ کے اراکین) کہہ رہے تھے وہ بہت اشتعال انگیز تھا اور قرآن پاک کو نذرآتش کرنے کے اقدام کو دیکھنا ہمارے لیے بہت زیادہ تکلیف دہ تھا'۔
عمر حیدر کا کہنا تھا کہ 'نوجوان لوگون نے مختلف طریقوں سے ردعمل دیا، کچھ نوجوانوں نے پولیس پر تنقید کی کہ کیونکہ انہوں نے ان لوگوں کو حراست میں لیا جنہوں نے قرآن پاک کے نسخے کو نذرآتش کرنے کے اقدام پر ردعمل دیا'۔اپنی بات کے دوران انہوں نے کہا کہ ' ہم نے نوجوانوں کو کہا کہ پولیس نے اپنی ڈیوٹی کی اور رکاوٹوں کو عبور کرنا قانون کے خلاف تھا، تاہم سچ یہ ہے کہ اس واقعے سے یہاں مسلم اور غیر مسلم ہر کسی فرد کو دکھ ہوا'۔
ہم مایوس ہیں دوسری جانب مسلمان نوجوانوں کے ایک گروپ نے کرسٹیان سینڈ میں پولیس سے 'بہت مایوسی' کا اظہار کیا اور مظاہرے کی جگہ سے 5 مسلمانوں کو حراست میں لینے پر انتظامیہ پر تنقید کی۔