نقطہ نظر ’لال، لال‘ ٹماٹر پر بات ہو رہی ہے اگر اللہ نےدولت بخشی ہے تو کیا آپ علاج بہتر معالجین سےنہیں کروائیں گے؟ پیسہ اگر صحت پر خرچ نہ کیا جائےتو کہاں کیا جائے؟ اشعر الرحمٰن لکھاری لاہور میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔ پہلا آدمی: جس زمانے کی بات میں تم سے کر رہا ہوں یہی وہ دن تھے جب ٹماٹر کی صحیح شناخت کا پتا چلا تھا۔ انہوں نے ہمیں تھرڈ کلاس میں پڑھایا تھا کہ ٹماٹر ایک پھل ہے...دوسرا آدمی: تیسری کلاس سے تمہاری مراد تھرڈ اسٹینڈرڈ ہے نا؟ پہلا آدمی: ہاں بھئی ہاں، جو تمہیں ٹھیک لگے۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ ٹماٹر پھل ہے لہٰذا چند دنوں بعد مریض کی عیادت کے لیے ہسپتال گئے تو ان کے لیے تحفتاً ٹماٹر کی تھیلی بھی ساتھ لے گئے۔ یہ 1975ء کی بات ہے۔ اس خیر سگالی کے جذبے کا مظاہرہ کرنے کے لیے ہمارا صرف اور صرف ایک روپیہ خرچ ہوا تھا۔دوسرا آدمی: اب تو ٹماٹر 400 روپے فی کلو بک رہے ہیں میاں، سو اب تو مریضوں کے لیے لوگ انگور کے گُچھے ہی چھوڑ کر جاتے ہوں گے۔ یوں انسان اور پھل، دونوں کی دوری کھٹے پن سے بھی پرے رکھتی ہے۔ پہلا آدمی: انگور؟ کیا ہوگیا ہے بھائی؟ کردی نہ شک کرنے والے عام آدمیوں جیسی چھوٹی بات؟ پہلے مجھے تو اپنی بات مکمل کرلینے دو... دوسرا آدمی: کون سی چیز مکمل؟ ٹماٹروں کی کتھا؟ تمہیں روشن پہلو بھی دیکھنا چاہیے۔ ایک شخص انہی ٹماٹروں سے پیسے بھی کما رہا ہے اور ویسے بھی تم تو کافی کھاتے پیتے گھرانے کے معلوم ہوتے ہو۔پہلا آدمی: اچھا بس کرو! میں جتنا بھی کھاؤں تمہیں اس سے کیا؟ یہ قومی سوال ہے میرے بھائی۔ پاکستانی اپنے مرغی اور اپنے ٹماٹروں کے سوا زندہ ہی نہیں رہ سکتے۔ بھلا اس ملک میں ان کے بھی کچھ حقوق ہیں یا نہیں...دوسرا آدمی: اجی معاف کیجیے گا۔ حقوق۔ ہاں جی بالکل ہیں۔ مگر آپ یقیناً وقت گزاری کر رہے ہیں، بات چیت کے لیے دیگر موضوعات بھی تو ہیں۔ جیسے مولانا کے ’پلان بی‘ کی ناکامی۔ پی ٹی آئی حکومت اپنے ہی پھینکے ہوئے کیلے پر خود پھسل گئی...پہلا آدمی: اب کیا ہم عمران خان کی بے وقوفیوں پر بات کریں؟ کم از کم اسے ایک موقع تو دیجیے صاحب۔ اگر وہ صحت کے شعبے میں اصلاحات لانے کی کوشش کرتا ہے تو ڈاکٹر صاحبان ناراض ہوجاتے ہیں۔ اگر وہ میڈیا کا تہذیبی معیار کچھ بلند کرنے کی سعی کرتے ہیں تو صحافیوں کو نہ جانے کیوں خدشات لاحق ہوجاتے ہیں۔ اگر دکانداروں پر ٹیکس کے نفاذ کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ طیش میں آکر اپنے شٹر بند کردیتے ہیں۔ وہ جذبات سے سرشار ہوکر عدلیہ سے عرض گزار ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں عدالتی اعتراض سامنے آجاتا ہے جو کہ قانونی رو سے درست بھی قرار دیا جائے گا۔دوسرا آدمی: میں تمہاری بات سے متفق نہیں ہوں۔ کیا تمہارا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس اس وقت صرف ایک ٹماٹر ہی اہم موضوع بچ گیا ہے؟ بہت سے ایسے موضوع ہیں جو اس وقت زیرِ بحث ہیں۔ جیسے نواز شریف کی دورانِ پرواز کھینچی گئی تصویر۔ یہ لوگ یہاں کے نظام میں پھنسے مریضوں کو ڈاکٹروں کے حوالے کرکے خود چلے گئے تاکہ ڈاکٹر صاحبان ان مریضوں پر تجربات کر کرکے اتنے قابل بن جائیں کہ ان جانوں کو بچا سکیں جو حقیقی معنوں میں قیمتی ہیں۔ پہلا آدمی: خدا کا خوف کریں۔ اب اگر اللہ نے آپ کو اتنی دولت بخشی ہے تو کیا آپ اپنا علاج بہتر معالجین سے نہیں کروائیں گے؟ پیسہ اگر صحت پر خرچ نہ کیا جائے تو کہاں کیا جائے؟ ذرا لاہور کے ان بڑے اور مہنگے ہسپتالوں کا ایک چکر تو لگا آئیے جو علاج معالجے پر منہ مانگی فیس دینے کے لیے تیار مالدار مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ آپ آخر چاہتے کیا ہیں میرے بھائی؟ سرکاری ہسپتالوں سے نحیف جسم والوں اور ہر وقت شکوہ شکایت کرنے والوں کو سرکاری ہسپتالوں سے باہر کھدیڑ دیا جائے اور ان کی جگہ نجی ہسپتالوں اور کلنکس میں علاج معالجہ کروانے والوں کو بھر دیا جائے؟ ہم ایسا کر سکتے ہیں لیکن صرف اس صورت جب نجی ہسپتالوں میں علاج کروانے والے یہ وعدہ کریں کہ وہ سرکاری ہسپتال میں علاج کروانے کے لیے ان افراد سے زیادہ پیسے دیں گے جنہیں آپ کے نزدیک فوری طور پر ہسپتال سے فارغ کردینا چاہیے۔دوسرا آدمی: آپ نے تو مراعت اور حقوق کی دلفریب تصویر تخلیق کردی ہے اور اس پر عام اور ان پڑھ لوگوں کے دکھ درد کا رنگ شامل کردیا ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جاسکے آپ کی آواز عام آدمی کی آواز ہے۔ یہ تو ٹھیک ایسا ہی ہے جیسے فیض کی 35ویں برسی کو انقلابی ٹچ دینے کے لیے 2 لڑکیوں اور ان کے کامریڈوں کو استعمال کرنا۔پہلا آدمی: ارے بھائی اب تو تم بالکل ہی ایک نئی بحث شروع کرنا چاہ رہے ہو۔ میرا موضوع تو بس ٹماٹر کا بلند ہوتا درجہ اور اس سے عام آدمی کے درجے پر پڑنے والے اثرات تھا...دوسرا آدمی: جی ہاں ’لال لال‘۔ انقلاب کا پھل پوری طرح سے پک چکا ہے۔ اس کا گودا دیکھ کر ہی اندازہ ہوتا ہے۔ اس لال لال چہرے کے پیچھے اشرافیہ کو لطف اندوز ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں۔ لال لال۔ ہوش ٹھکانے وغیرہ پر مبنی تم اپنے اس نئے ’کمیونسٹی ترانے‘ کے ذریعے لوگوں کو اپنے راستے پر راغب کرنا چاہ تو رہے ہو، مگر او میرے بھائی، لوگوں کا بہت پہلے ہی ہوش ٹھکانے آگیا تھا۔ درحقیقت فیض کی یاد میں منائی گئی تقریب میں آپ کو یہ ٹھکانہ حاصل کرنے میں برسہا برس لگے ہیں۔ یہ اشرافیائی ٹھیک ایسی ہی ہے جیسے کوئی مراعات یافتہ شخص کورٹیزون (cortisone) کے چند ٹیکے لگوانے ہارلے اسٹریٹ جاتا ہے۔ آپ نے نواز شریف کو پاکستان چھوڑتے اور انگلینڈ میں لینڈ کرتے ہوئے دیکھا؟ وہ بھی اپنے قدموں پر چلتے ہوئے...پہلا آدمی: تو اس میں غلط کیا تھا؟دوسرا آدمی: کچھ غلط نہیں؟ میرے بھائی ایک ایسا مریض بڑے آرام سے اپنے قدموں پر لاہور سے لندن جا رہا ہے، جس کی زندگی خطرے میں بتائی گئی تھی...پہلا آدمی: اس جہالت پر روؤں یا خود کو پیٹوں؟ میں نے immune thrombocytopenic purpura کے مریضوں کو دیکھا ہے۔ ضروری نہیں کہ ان کی آنکھوں میں بیمار شخص کی سی مخصوص بدحواسی کی حالت نظر آئے۔ وہ ہسپتال کے بستر پر خود اپنے قدموں پر چل کر لیٹ سکتے ہیں۔ دوسرا آدمی: یقیناً۔ مگر میرے بھائی تم نے وہ ویڈیو دیکھی جس میں میاں صاحب میں اتنی ہمت نظر آرہی ہے کہ وہ ہسپتال کے بستر پر لیٹنے سے پہلے اللہ جانے کتنوں سے گلے ملتے ہوئے جا رہے ہیں؟پہلا آدمی: تو اس میں کیا بُرا ہے؟ جب دوست ملتے ہیں تو ان کے ساتھ مثبت جذبات کے ساتھ ملنا ایک فطری عمل ہے۔ میاں صاحب یہ بات کبھی نہیں بھولتے اور اس کے قائل بھی ہیں۔ انہوں نے تو علاج معالجے کی غرض سے بیرون ملک جانے میں مدد فراہم کرنے پر چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔پہلا آدمی: بیرون ملک جانے یا فرار ہونے میں؟دوسرا آدمی: اجی جو چاہیں سو کہیے، لیکن چوہدری برادران جانتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کیونکہ ہر سیٹ اپ میں ان کی شمولیت لازمی قرار پاتی ہیں، یوں سمجھ لیجیے کہ یہ برادران ہی وہ بنیادی چال اور ڈھال فراہم کرتے ہیں جن کی مدد سے آپ کو انواع و اقسام کی کھچڑیاں پکانی ہوتی ہیں۔دوسرا آدمی: دیکھو دیکھو تم اصل مدعے سے بھٹک رہے ہو۔پہلا آدمی: نہیں بالکل نہیں۔ آپ نے تو مجھے ایک ایسی مثال دے دی ہے جس کی مدد سے میں اپنی اس تھیوری کو آگے بڑھا رہا ہوں کہ ہم جو بھی کام کرتے ہیں اس میں شامل ہونے والے ناگزیر، بنیادی اور یکجا رکھنے کی قوت رکھنے والے مٹیریل کی ٹماٹر کس طرح ترجمانی کرتے ہیں۔ بلکہ میں تو تمہیں یہ دوسرے طریقے سے بتاسکتا تھا کہ کس طرح یہاں آپ گجرات کے چوہدریوں کے سوا کسی سیٹ اپ کی توقع نہیں کرسکتے اور کس طرح یہ حضرات صرف خاص موسموں میں بوقتِ ضرورت نمودار ہوتے ہیں اور پھر تقریباً منظرنامے سے ہی غائب ہوجاتے ہیں۔(اشیائے خورد و نوش کی کمی اور سیاستدانوں کی پیداوار اور برآمدات کا اگلا موسم آنے تک گفتگو کے دوسرے حصے کا انتظار فرمائیے۔)یہ مضمون 22 نومبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔ اشعر الرحمٰن لکھاری لاہور میں ڈان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔