‘دھرنا ختم کرنے کی شرط پر وزیراعظم کے استعفے کی یقین دہانی نہیں کرائی گئی‘
لاہور: پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہیٰ نے کہا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو وزیراعظم عمران خان کے استعفے اور اسمبلی تحلیل کرنے سے متعلق کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی۔
جے یو آئی (ف) سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے پرویز الہیٰ نے کہا کہ اسلام آباد دھرنا ختم کرنے کی شرط پر انہیں (فضل الرحمٰن) کو وزیراعظم کا استعفیٰ یا اسمبلیاں تحلیل کی یقین دہانی نہیں کرائی۔
مزید پڑھیں: حکومت اور جمعیت علما اسلام (ف) کے درمیان مذاکرات
واضح رہے کہ سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے انکشاف کیا تھا کہ چوہدری پرویز الٰہی نے جے یو آئی (ف) کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وزیر اعظم استعفی دے دیں گے اور اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں گی۔
انہوں نے دعوی کیا تھا کہ ’ہم نے کچھ قابل اعتماد افراد کی جانب سے یقین دہانی کرانے کے بعد (13 نومبر کو) اپنا دھرنا ختم کردیا تھا اور پرویز الہیٰ ضمانت دینے والے تھے‘۔
اس ضمن میں پرویز الہیٰ نے سینیٹر عبدالغفور حیدری کے موقف کو مسترد کیا کہ جے یو آئی (ف) کو کوئی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔
پرویز الہیٰ نے مزید کہا کہ ’ہم نے پہلے ہی دن جے یو آئی (ف) کو پارلیمنٹ میں واضح کردیا تھا کہ نہ ہی وزیر اعظم کا استعفیٰ دیا جائے گا اور نہ اسمبلیوں کو تحلیل کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: چیئرمین سینیٹ، گورنر کے عہدے کی بھی پیشکش ہوئی، فضل الرحمٰن
انہوں نے مزید کہا کہ ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے کے لیے سب ایک پیج پر ہیں۔
مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’مسلم لیگ (ق)، پی ٹی آئی کی حکومت کی اتحادی ہے اور ہمارے پاس وزیر اعظم خان کی قیادت میں متفقہ لائحہ عمل ہے۔
پرویز الہیٰ نے بالواسطہ طور پر یہ بھی تجویز پیش کی کہ وزیر اعظم کو بڑے جذبات کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنے سیاسی مخالفین کو معاف کرنا سیکھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ربیع الاول کا مقدس مہینہ ہے جس میں انسانیت کے رہبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں تشریف لائے، ہمیں خدا کی مخلوق کو اس کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے معاف کرنا سیکھنا چاہیے کیونکہ اس میں سب کی بھلائی ہے۔
پرویز الہٰی نے مزید واضح کیا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت کے دوران جے یو آئی (ف) کو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں دی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ لاہور کیلئے روانہ
خیال ہے کہ گزشتہ ماہ مولانا فضل الرحمٰن نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے خلاف کراچی سے 'آزادی مارچ' کا آغاز کیا تھا اور 31 تاریخ کو اسلام آباد میں دھرنا ختم کرنے کے بعد پلان سی کا اعلان کیا تھا جس کے تحت ضلعی سطح پر مظاہرے اور دھرنے شامل تھے۔
اسی دوران چوہدری برادران پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی اور چوہدری شجاعت حسین نے 36 گھنٹوں میں مولانا فضل الرحمٰن سے تین ملاقاتیں کیں۔
جس کے بعد قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا کہ مسلم لیگ (ق)، تحریک انصاف کی حکومت علیحدہ ہو رہی ہے۔
علاوہ ازیں مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے بیان دیا تھا کہ وزیراعظم کی ٹیم میں ’اناڑی مشیر‘ شامل ہیں جو انہیں جے یو آئی (ف) کے دھرنے کے دوران حکومتی رٹ قائم کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے پر زور دے کر ’درست مشورہ‘ نہیں دے رہے تھے۔
مزید پڑھیں: 'ہمیں اشتعال دلایا تو 24 گھنٹے میں شکست ہوجائے گی'
اس کے بعد چوہدری پرویز الہٰی نے کہا تھا کہ ’کوئی سازشی نظریہ حکومتی اتحادیوں کے مابین دراڑ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا اور اس کے پسِ پردہ جو بھی ہیں وہ ناکام ہوں گے‘۔
خیال رہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی نے صوبے میں پی ٹی آئی حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا جس کے باعث مسلم لیگ (ن) اپوزیشن میں بیٹھنے پر مجبور ہوگئی تھی۔
واضح رہے کہ 21 نومبر کو مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت مخالف پلان ’سی‘ کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں چیئرمین سینیٹ اور گورنر کے عہدے سمیت بلوچستان حکومت کی پیشکش بھی ہوچکی ہے۔