پاور پرچیزنگ ایجنسی نےعالمی عدالت میں چینی کمپنی سے کیس جیت لیا
سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے-جی) نے جرمانے کے خلاف چینی کمپنی زونرجی کی ذیلی کمپنیوں کی جانب سے عالمی ثالثی عدالت میں کیا گیا تقریباً ایک ارب روپے کا مقدمہ جیت لیا۔
پاورڈویژن کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق لندن میں قائم عالمی ثالثی عدالت میں سی پی پی اے-جی کی جانب سے کورنیلیئس، لین اینڈ مفتی ایڈووکیٹس اینڈ سولسٹرز (سی ایل ایم) کی ٹیم نے مقدمہ لڑا جس میں سپریم کورٹ کے وکیل بیرسٹر منور السلام، ہائی کورٹ کے وکیل بیرسٹر ولید خالد، عادل عمر بندیال، احمد طارق اور مسز آمنہ سلام ایڈووکیٹ شامل تھیں۔
اعلامیے کے مطابق ‘سی پی پی اے-جی اور چینی کمپنی زونرجی کمپنی لمیٹڈ کی تین ذیلی کمپنیوں نے انرجی پرچیز ایگریمنٹ (سی پی اے) کے تحت 26 جون 2015 کو کیے گئے 300 میگاواٹ سولر پاورپروجیکٹ کے معاہدے پر پیدا ہونے والے تنازع کے حل کے لیے رواں برس عالمی ثالثی عدالت لندن سے رجوع کیا تھا’۔
یہ بھی پڑھیں:ملتان میٹروبس منصوبے میں بدعنوانی کا الزام، چینی کمپنی پر پابندی عائد
پاور ڈویژن کا کہنا تھا کہ ‘فریقین میں تنازع 300 میگاواٹ کے سولر پاور منصوبوں کی معاہدے کے مطابق عدم تکمیل اور تاخیر کے باعث پیدا ہوا تھا’۔
اعلامیے کے مطابق عالمی ثالثی عدالت میں حتمی سماعت 29 اپریل 2019 سے 3 مئی 2019 تک اسلام آباد میں ہوئی تھی اور عالمی عدالت کی جانب سے مقرر کیے گئے ثالث نے اپنا فیصلہ 19 نومبر 2019 کو دے دیا تھا۔
ثالث نے اپنے فیصلے میں کہا کہ دونوں فریقین نے جس معاہدے پر دستخط کیے اس پر عمل درآمد کرنے کے پابند تھے اور سی پی جی اے کی جانب سے منصوبے کی تاخیر پر عائد کیا گیا جرمانہ درست تھا۔
پاور ڈویژن کے مطابق ثالث نے فیصلے میں واضح کیا کہ ‘ای پی اے میں جرمانے کے حوالے سے شامل کی گئیں شقیں قانونی اور قابل عمل تھیں جس کے نتیجے میں عدالت نے زونرجی کی ذیلی کمپنی کی جانب سے سی پی جی-اے کے خلاف کیا گیا دعویٰ مسترد کردیا’۔
حکام کے مطابق سی پی پی اے-جی نے منصوبے پر تاخیر کے جرم میں نے زونرجی کمپنی پر ایک ارب روپے کا جرمانے عائد کیا تھا جس کے بعد چینی کمپنی نے عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
عالمی ثالثی عدالت میں مقدمے میں شکست کے بعد اب زونرجی کمپنی کو ایک ارب روپے کا جرمانہ سی پی پی اے-جی کو ادا کرنا ہوگا۔
مزید پڑھیں:چینی سفیر کی ملتان میٹرو بس پروجیکٹ میں کرپشن کی تردید
یاد رہے کہ دسمبر 2017 میں ملتان میٹرو بس منصوبے میں چینی کمپنی جیانگسو یابیٹ لمیٹڈ کو جعلسازی اور دھوکے بازی کے الزامات پر چائنا سکیورٹیز ریگولیٹری کمیشن (سی ایس آر سی) کی جانب سے 9 لاکھ یوان جرمانہ کیا گیا تھا اور پابندی بھی عائد کی گئی تھی۔
اس وقت کی پنجاب حکومت نے بھی ان الزامات پر انکوائری کا آغاز کیا تھا جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ جیانگسو یابیٹ نے ملتان میٹرو منصوبے کے لیے کوئی کام ہی نہیں کیا اور نہ ہی اس منصوبے کے ٹھیکیداروں نے کسی مقام پر اس کمپنی کی خدمات حاصل کیں۔
جیانگسو یابیٹ کو لمیٹڈ نے ایک خط کے ذریعے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ چینی حکومت کی جانب سے دی جانے والی سزا کو قبول کرتے ہیں جبکہ چین میں بھیجی جانے والی رقم کا میٹرو بس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔