نقطہ نظر

اگر ’سہیل ایاز‘ کل اسکول کھول لے تو؟

زیادتی کی سزا پانے والے کتنے ہی درندے ہمارے بچوں کےاردگرد موجود ہیں جو اب کسی بھی جگہ کسی بھی روپ میں زندگی گزار رہے ہیں

بچوں سے زیادتی اور اس درندگی کی ویڈیو بنانے والے سہیل ایاز کی گرفتاری کی خبر صرف ایک خبر نہیں، بلکہ اس میں ہماری بے خبری، بے حسی اور بچوں کے تحفظ سے بے اعتنائی کی پوری کہانی چھپی ہے۔

راولپنڈی سے گرفتار ہونے والے سہیل ایاز کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ وہ بچوں کی فحش ویڈیوز بنانے والے ایک گروہ کا سرغنہ ہے اور بچوں سے زیادتی کی ویڈیوز براہِ راست ’ڈارک ویب‘ پر لاتا رہا ہے۔ اس پر 30 بچوں کے اغوا اور ان سے زیادتی کا الزام ہے۔

قانونی زبان میں ابھی وہ ’مشکوک‘ ہے، لیکن اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ وہ ایک سیاہ ماضی رکھتا ہے، جس کی تفصیل خبروں میں آچکی ہے کہ سہیل ایاز برطانیہ میں بچوں سے زیادتی اور اس غلیظ عمل کی ویڈیو بنانے کے الزام میں قید کاٹنے کے بعد ملک بدر کردیا گیا تھا۔

یہ شخص برطانیہ میں بچوں کو تحفظ کے لیے قائم اقوام متحدہ کے ادارے ’سیو دی چلڈرن‘ سے وابستہ تھا، جہاں وہ اپنا مکروہ کھیل کھیلتا رہا۔ گرفتاری کے بعد اس کے لندن میں واقع گھر سے ہزاروں کی تعداد میں بچوں سے زیادتی اور ان سے ہوس ناکی کرنے کے عمل کی تصاویر برآمد ہوئی تھیں، جن میں سے کچھ تصاویر صرف 6 ماہ کے بچوں کی تھیں!

کچھ تصاویر میں خوفزدہ، کرب اور تکلیف سے تڑپتے معصوم بچے بندھے ہوئے تھے یا ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی۔ سہیل ایاز نے اعتراف کیا تھا کہ یہ تصاویر درندگی کے 397 واقعات کی ہیں۔ اعترافی بیان کے مطابق اس نے بچوں سے متعلق ادارے میں ملازمت کی ہی اس لیے تھی کہ وہ بے آسرا بچوں تک رسائی حاصل کرسکے۔

اپنے کرتوتوں سے ملک کا نام ’روشن‘ کرکے واپس آنے والے سہیل ایاز کو یہاں خیبرپختونخوا کے گورننس اینڈ پالیسی پروجیکٹ میں کنسلٹنٹ کی ملازمت مل گئی اور تنخواہ 3 لاکھ روپے ماہوار قرار پائی، باقی مراعات الگ سے۔

فرض کیجیے سہیل ایاز مشکوک سے مجرم تک کا سفر طے کرکے بچوں سے زیادتی کے الزام میں سزا پاتا ہے، پھر چند سال بعد رہا ہوجاتا ہے۔ اب اگر وہ کوئی اسکول کھولتا ہے، بچوں کے لیے کوئی تربیتی مرکز قائم کرتا ہے، یتیم خانہ بنانے کی ٹھانتا ہے، ڈے کیئر سینٹر بناتا ہے یا بچوں سے متعلق کسی تنظیم یا ادارے کا قیام عمل میں لاتا ہے تو ہمارے ملک میں کون سا قانون ہے جو اسے روک پائے؟

چلیے وہ اپنی شیطانیت کے لیے کسی ذریعہ معاش اور خدمتِ خلق کا سہارا نہیں لیتا، تاہم یہ بات تو پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ سزایاب ہونے کی صورت میں (سزا نہیں ہوتی تو اپنا ماضی سامنے آنے کے باعث) وہ اس شہر میں نہیں رہے گا جہاں کتنے ہی بچوں کی زندگیاں کچل چکا ہے اور جہاں قدم قدم پر بدنامی اس کا سایہ بنی رہے گی، جس کا مطلب یہ ہوا کہ پھر اس کا اگلا مسکن میرا شہر بھی ہوسکتا ہے اور آپ کا بھی، میرا محلہ بھی اور آپ کا بھی، میرا پڑوس بھی اور آپ کا پڑوس بھی۔ اتنا ہی نہیں۔ وہ اپنی پہچان چھپاتے ہوئے ٹیوشن پڑھانے کا پیشہ اپنالے، کسی اسکول میں ملازمت کرلے یا بچوں سے متعلق کسی بھی ادارے سے وابستہ ہوجائے تو کسے پتا چلے گا کہ کتنے ہی معصوم بچے ایک عفریت کے پنجوں کی دسترس میں ہیں؟

یہ ایک فرد کا معاملہ نہیں، ایسے کتنے ہی درندے ہمارے بچوں کے اردگرد موجود ہیں جو بچوں سے زیادتی کے جرم کی سزا پاکر رہا ہوئے اور اب کسی بھی جگہ کسی بھی روپ میں زندگی گزار رہے ہیں، اور خطرناک بات یہ ہے کہ ان کے آس پاس رہتے بستے زندگی کرتے افراد میں سے کوئی ان کے پس منظر اور سزا کے بارے میں نہیں جانتا۔

اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ بچوں سے زیادتی کا شیطانی فعل قتل، چوری، ڈاکے، راہزنی، بدعنوانی جیسا کوئی جرم نہیں، ایسے واقعات ایک خاص ذہنی رجحان کی پیداوار ہوتے ہیں۔ قتل فوری اشتعال کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے اور انتقامی کارروائی بھی، ڈاکا، چوری اور راہزنی کی واردات کسی مجبوری کا شاخسانہ ہوسکتی ہے، لیکن جنسی زیادتی وہ بھی بچوں سے! اس کا کوئی جواز دینا ممکن ہے؟

اس عمل کو تو درندگی کہنا بھی درندوں کی توہین ہے کیونکہ درندے اپنی بھوک کی جبلت کے تحت کمزور جانوروں کے بچوں کو چیرپھاڑ تو دیتے ہیں لیکن کیا کبھی کسی نے سُنا یا دیکھا کہ کسی بھی جانور نے اپنی نوع کے کسی بچے سے جنسی تلذذ حاصل کرنے کی کوشش کی ہو؟ حیرت ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے کوئی غیر معمولی سزا مقرر کیوں نہیں؟ سخت یا غیر معمولی سزا تو دُور کی بات، ہمارے ملک میں تو وہ سادہ سے قوانین بھی موجود نہیں جو ان بھیڑیوں سے بچوں کو تحفظ فراہم کرتے ہوں۔

مختلف ممالک میں بچوں سے زیادتی کا ارتکاب کرکے سزا پانے والوں یعنی جنسی مجرم (Sex offender) کی شناخت اور ان سے بچوں کو بچائے رکھنے کے لیے 'سیکس افینڈر رجسٹریشن' کا قانون رائج ہے، جس کے تحت جنسی مجرموں کو لمبے عرصے تک یا تاحیات کچھ پابندیوں اور قواعد و ضوابط کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سیکس افینڈر رجسٹریشن دراصل ایسی فہرست کا نام ہے جس میں جنسی جرائم میں ملوث افراد کے نام شامل کیے جاتے ہیں۔ رجسٹریشن کا یہ سلسلہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی موجود ہے۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 'برطانیہ میں 2003ء میں پاس ہونے والے قانون کے تحت ’وائلنٹ اینڈ سیکس افینڈرز رجسٹر‘ رکھا جاتا ہے جس میں ہر اس شخص کا نام درج کیا جاتا ہے جو جنس سے متعلق کسی بھی نوعیت کے جرم میں سزا یافتہ ہو۔ اگر کسی شخص کو جنس سے متعلقہ جرم میں 6 ماہ یا اس سے زائد عرصے کی سزا ہوتی ہے تو اس کا نام رجسٹر میں اگلے 10 سالوں تک کے لیے درج کرلیا جاتا ہے اور اگر سزا 30 ماہ سے زائد ہے تو ایسے مجرم کا نام غیر معینہ مدت تک کے لیے رجسٹر میں درج رہتا ہے۔ ڈیٹا پروٹیکشن کے قوانین کے تحت عوام کو اس رجسٹر تک براہِ راست رسائی نہیں ہوتی۔ تاہم معلومات تک رسائی کے قوانین کے تحت کوئی بھی شخص پولیس سے کسی مشتبہ شخص کے حوالے سے معلومات لے سکتا ہے کہ آیا اس کا نام رجسٹر میں موجود ہے یا نہیں‘۔

برطانیہ میں جنسی مجرم کے طور پر رجسٹرڈ کوئی شخص قانون، طب، تدریس اور نرسنگ کے شعبوں میں ملازمت حاصل نہیں کرسکتا۔ نہ وہ سماجی بہبود کا کوئی کام کرسکتا ہے۔ بعض اوقات برطانوی پولیس جنسی جرائم کی سزا مکمل کرکے رہا ہونے والوں پر نظر رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لیتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی جنسی مجرم کے کمپیوٹر میں مخصوص سافٹ ویئر انسٹال کردیا جاتا ہے، جس کی مدد سے اس جنسی مجرم کی طرف سے انٹرنیٹ پر کسی غیر قانونی مواد کی تلاش یا اسے دیکھنے کی صورت میں پولیس کو فوری طور پر خبر مل جاتی ہے۔

جنسی مجرم کی رجسٹریشن اور نوٹیفکیشن سسٹم گزشتہ 20 سال سے دنیا کے مختلف ممالک میں رائج ہے۔ یہ سلسلہ 1994ء میں امریکا سے شروع ہوا، جس کے بعد سے برطانیہ کے علاوہ کئی ملک جنسی مجرموں کے اندراج کا نظام اپنا چکے ہیں۔ یہ اندراج دیگر مجرموں کے کوائف جمع کرنے یعنی ’کریمنل ہسٹری ریکارڈ انفارمیشن‘ مماثل ہوتا ہے۔

امریکا کی تمام ریاستوں میں جنسی مجرموں کی رجسٹریشن رائج ہے۔ یہ اندراج ویب سائٹس کی صورت عوام کے لیے قابلِ رسائی ہے۔ تاہم کچھ جنسی مجرموں کا ریکارڈ صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ جنسی مجرموں سے متعلق درج کی جانے والی معلومات میں نام، پتا، جائے روزگار، ان کے جسم پر موجود نشانات، ٹیٹوز، تصویر، زیرِ ملکیت گاڑی کی تفصیلات اور فنگر پرنٹس شامل ہیں۔

اس کے ساتھ جنسی مجرموں پر مختلف نوعیت کی پابندیاں بھی عائد ہیں، جن میں کسی جگہ بلاجواز وقت گزارنے یا پائے جانے پر ممانعت، مخصوص علاقے میں رہنے اور کام کرنے پر پابندی جو بعض اوقات پورے پورے شہر بھی ہوسکتے ہیں، اور جنسی مجرموں کے لیے مختص جگہوں پر انہیں بالجبر رکھنا شامل ہے۔

امریکا میں جنسی مجرموں کے لیے ایسی ہی مختص ایک جگہ Julia Tuttle Causeway sex offender colony ہے۔ یہ کالونی میامی شہر کی آبادی سے باہر شاہراہ پر واقع ہے۔ اسے جنسی مجرموں سے بچوں کو بچانے کے لیے کئی قوانین کے خالق رون بوک نے قائم کی تھی۔ ان قوانین کے تحت جنسی جرم کے مرتکب افراد کا اسکولوں، پارکس، بس اسٹاپس اور بے گھر افراد کی پناہ گاہوں سے ڈھائی ہزار فٹ کی حدود میں رہنا ممنوع ہے۔

امریکا کی ریاستوں میں اس حوالے سے مختلف قوانین رائج ہیں۔ بعض ریاستوں میں کم خطرناک جنسی مجرموں کے کوائف عوام سے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں۔ اکثر ریاستوں میں جنسی مجرموں کو ان کے جرم کی نوعیت اور شدت کے اعتبار سے مختلف زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے، جسے سامنے رکھتے ہوئے اور رجسٹریشن اور پابندیوں کا دورانیہ 10 سال سے تاعمر ہوسکتا ہے۔

واضح رہے کہ صرف امریکا میں جنسی مجرموں کے کوائف عوام کے لیے قابلِ رسائی ہیں، رجسٹریشن کے قانون کے حامل دیگر ممالک میں یہ کوائف شہریوں سے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں، لیکن ان ممالک میں بھی نہایت خطرناک مجرمان اور وہ سزایافتہ افراد جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ اس جرم کے مرتکب ہوسکتے ہیں، ان کے کوائف عوام کی پہنچ میں ہوتے ہیں۔

امریکا کے کچھ علاقوں میں ویب سائٹ کے علاوہ اخبارات اور کمیونٹی نوٹیفکیشنز کے ذریعے بھی جنسی مجرموں کی بابت عوام کو آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ اگر کوئی مجرم امریکا کی ایک ریاست سے دوسری ریاست منتقل ہوتا ہے تو اس کی رجسٹریشن اس ریاست میں بھی کی جاتی ہے اور اس کے کوائف تک عوام کو رسائی حاصل ہوجاتی ہے۔

رجسٹریشن کا دورانیہ ختم ہوجانے کے باوجود جنسی مجرموں کو مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے کچھ امریکی ریاستوں کے قوانین کے مطابق ایسے مجرم کسی ایسی جگہ سے مخصوص فاصلے کی دُوری پر رہنے کے پابند ہیں جہاں بچے اور خاندان اکھٹے ہوتے ہیں، جیسے اسکول، عبادت گاہیں، پارک، اسٹیڈیم، ہوائی اڈے، اپارٹمنٹس، شاپنگ مال، اہم ریٹیل اسٹورز، کالجوں کے کیمپس، اور دیگر مخصوص محلے۔ اسی طرح کچھ ریاستوں میں جنسی مجرم کا ووٹ دینا بھی ممنوع ہے۔

امریکی ریاست میسوری میں ہالووین کے تہوار کی سرگرمیوں میں رجسٹرڈ جنسی مجرم حصہ نہیں لے سکتے۔ ان مجرمان کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کسی بچے سے ہالووین سے متعلق رابطہ نہیں کریں گے اور شام 5 بجے سے رات ساڑھے 10 بچے تک اپنے گھر میں رہیں گے۔ اس دوران وہ اپنے گھر کے باہر روشنیاں بند رکھیں گے اور لکھ کر لگائیں گے کہ 'یہاں نہ مٹھائی ملے گی نہ خاطر ہوگی، اس گھر میں جنسی مجرم رہتے ہیں'۔

جنسی مجرموں کی رجسٹریشن اور ان پابندیوں کے قوانین اس حقیقت کے پیش نظر بنائے گئے ہیں کہ ان کا جرم محض جرم نہیں بلکہ ایک خاص شیطانی رجحان اور مکروہ فطرت کے تحت کیا جانے والا عمل ہے، جسے وہ بار بار دہراتے ہیں یا دہرا سکتے ہیں۔

انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ معصوم بچوں کی شخصیت قتل کردینے والے ان موذی افراد کے لیے سخت سے سخت سزا مقرر کی جائے، اگر یہ نہیں ہوسکتا تو کم از کم اتنا تو ہوسکتا ہے کہ مزید بچوں کا بچپن اور معصومیت چھین جانے سے بچانے کے لیے ضروری قوانین بنائے جائیں۔

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں معاشرے، حکومتی اداروں اور قانون ساز اداروں میں بچوں کے مسائل پر سوچنا بچکانہ عمل تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قصور کا خوفناک اسکینڈل سامنے آنے اور بچوں سے ہر سال زیادتی کے واقعات ہونے کے باوجود ہمارے ہاں جنسی مجرموں کی رجسٹریشن اور ان پر ضروری پابندیاں عائد کرنے کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا گیا۔

دوسری طرف کوئی ایسا نظام کار بھی موجود نہیں جس سے پتا چل سکے کہ کسی دوسرے ملک سے ملک بدر ہوکر واپس آنے والے پاکستانی کو کس بنا پر نکالا گیا؟ سابق وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک کا کہنا ہے کہ سہیل ایاز یا اس جیسے معاملے میں ایف آئی اے (فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی) کے پاس کوئی طریقہ نہیں کہ وہ کسی (ڈیپورٹ کیے جانے والے) شخص کے جرائم کی بابت جان سکے۔

کیا بچوں اور خواتین سے زیادتی اور اس عمل کی تصاویر اور ویڈیوز فحش سائٹس پر لانے کا دھندا دہشتگردی سے کم سنگین جرائم ہیں جن کا ارتکاب کرنے والوں کی معلومات کے باہمی تبادلے کی ضرورت محسوس نہ کی جائے؟ خاص طور پر اس وقت جب ایسا کوئی مجرم میزبان ملک سے اپنے آبائی وطن بھیجا جارہا ہو۔ دہشتگرد معصوم لوگوں کی زندگیوں سے ایک بار کھیلتے ہیں لیکن جنسی مجرم تو پھول سے بچوں کی زندگیوں میں ہمیشہ کے لیے اذیت، تذلیل اور کرب بھر دیتے ہیں۔ ایسی تکلیف کہ وہ روز جیتے روز مرتے ہیں۔

اگر پاکستان اور برطانیہ کے درمیان جنسی مجرموں کے بارے میں معلومات کے تبادلے کا نظام موجود ہوتا اور پاکستان میں ایسے مجرموں کی رجسٹریشن یا کم از کم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ان کے کوائف کی موجودگی کا انتظام ہوتا تو سہیل ایاز جیسے شیطان کو مبیّنہ طور پر 30 بچوں کی زندگیاں جہنم بنانے سے روکا جاسکتا تھا۔

بچوں سے زیادتی کا معاملہ اب سادہ نہیں رہا، حقائق نے منکشف کردیا ہے کہ یہ سلسلہ ڈارک ویب سائٹس، پورنوگرافی اور غلیظ مشغلے جیسے کالے دھندے تک دراز ہے۔

کیا اب بھی ہمیں ہوش نہیں آئے گا؟ جب تک جنسی مجرموں کی رجسٹریشن اور ان پر پابندیوں کے لیے قانون سازی نہیں ہوتی اور ان قوانین کا موثر اطلاق نہیں ہوتا یہ درندے جانے کس کس مقام پر ہمارے بچوں کے لیے خطرہ بنے رہیں گے۔

عثمان جامعی

عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔