اسلام آباد ہائیکورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی کا امکان
سال 2011 میں اپنے قیام کے بعد سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہلی خاتون جج کو تعینات کیے جانے کی راہ ہموار ہوگئی۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) نے عدالت میں ججوں کی خالی آسامیوں پر لبنیٰ سلیم پرویز سمیت 3 وکلا کی تعیناتی کی منظوری دے دی۔
ایڈووکیٹ لبنیٰ سلیم پرویز پہلی خاتون جج بن سکتی ہیں جو اسلام آباد ہائیکورٹ میں بطور جج خدمات انجام دیں گی تاہم اس کے لیے جے سی پی کی نامزدگیوں کے لیے ججز تقرری پر قائم پارلیمانی کمیٹی کی منظوری ضروری ہے۔
مزید پڑھیں: بلوچستان ہائیکورٹ میں پہلی مرتبہ خاتون چیف جسٹس کی تقرری کا امکان
اس کمیٹی کا اجلاس دو ہفتوں میں چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ہوگا۔
علاوہ ازیں لبنیٰ پرویز سلیم سندھ ہائی کورٹ میں بطور ڈپٹی اٹارنی جنرل خدمات انجام دے رہی تھی جبکہ دیگر 2 وکلا فیاض انجم جندران اور غلام اعظم قمبرانی ہیں۔
فیاض انجم جندران اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے وکیل ہیں اور وہ اسلام آباد بار کونسل (آئی بی سی) کے رکن ہیں جبکہ وہ کئی سال قبل آئی بی سی کے نائب چیئرمین کا عہدہ بھی رکھ چکے ہیں۔
دوسری جانب غلام اعظم قمبرانی بلوچستان کے مشہور وکیل ہیں جبکہ وہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بھی تھے۔
ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010 کے مطابق 'عدالت ایک چیف جسٹس اور 6 دیگر ججز پر مشتمل ہوگی جن کا تقرر پاکستان کے صوبوں سمیت دیگر علاقوں سے ہوگا'۔
اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ میں 7 نشستوں کے مقابلے میں 4 ججز موجود ہیں جبکہ عدالت عالیہ میں زیر التوا کیسز کی تعداد 18 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
آئین کے آرٹیکل 175 اے کے مطابق جے سی پی سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور وفاقی شریعت کورٹ میں خالی نشستوں کے لیے نام نامزد کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سمن کماری ملک کی پہلی ہندو خاتون جج مقرر
اس کے علاوہ پارلیمانی کمیٹی 8 اراکین پر مشتمل ہوتی ہے جس میں 4 سینیٹ اور 4 قومی اسمبلی سے رکن ہوتے ہیں، ان میں سے ہر ایوان سے 2 اراکین حکومتی اور 2 اراکین اپوزیشن بینچز سے ہونے چاہیے۔
یہ بھی تصور کیا جاتا ہے کہ کمیٹی دو ہفتوں میں ان نامزدگیوں پر فیصلہ کرے گی۔
یاد رہے کہ 11 نومبر کو وزارت قانون نے جے سی پی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے ججوں کی 3 خالی نشستوں کو پُر کرنے کے لیے سفارشات کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔
یہ خبر 22 نومبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی