حد یہ کہ اب اسٹیٹ بینک بھی خسارے کے ڈنک سے نہ بچ سکا

بدقسمتی یہ کہ پاکستان کو روزِ اوّل سے مالی خساروں کا سامنا رہا ہے۔ نومولود ملک کو حاصل ہونے والے ٹیکسوں اور اخراجات میں ایک واضع فرق موجود تھا۔ اس فرق کو بینکوں، غیر ملکی مالیاتی اداروں کے قرض یا پھر دوست ملکوں کی مالی معاونت سے پورا کیا گیا۔
جیسے جیسے پاکستان کی عمر بڑھتی گئی ویسے ویسے خسارے میں کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہوتا چلا گیا جس کی وجہ سے بعض اوقات پاکستان کی خود مختاری بھی داؤ پر لگتی رہی۔
مالی فائدوں اور سہولیات کے حصول کی خاطر گزشتہ حکومتوں کو بہت سے ایسے اقدامات اٹھانا پڑے جو ملکی مفاد، خود مختاری اور سالمیت کے منافی تصور کیے جاتے ہیں۔ پاکستان نے 60ء اور 70ء کی دہائی میں ایسے ادارے قائم کیے جنہیں ہمارا مالی بوجھ اٹھانا تھا مگر وہ ایسے خسارے میں گئے کہ ہم پر ہی بوجھ بن گئے۔
تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو امید بندھی تھی کہ خسارے میں چلنے والے اداروں میں کچھ بہتری نظر آئے گی۔ عمران خان کی حکومت سے یہ توقعات وابستہ کی گئیں کہ خسارے میں چلنے والی اسٹیل ملز، پی آئی اے، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پاکستان ریلوے، شعبہ توانائی کی کمپنیوں اور دیگر اداروں میں تیزی سے اصلاحات کی جائیں گی، انہیں یا تو فروخت کردیا جائے گا یا پھر ان کی تنظیمِ نو کرتے ہوئے منافع بخش بنانا جائے گا۔ مگر ان اداروں نے تو ’نئے پاکستان‘ میں خسارے کے تمام ریکارڈ ہی توڑ ڈالے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ کاروباری اداروں کا خسارہ دفاعی بجٹ سے زیادہ ہوگیا۔ مالی سال 19ء-2018ء کے دوران حکومت کے کاروباری اداروں نے ایک ہزار 622 ارب روپے کا خسارہ کیا۔
تاریخ گواہ ہے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی کتابوں میں کبھی نقصان درج ہی نہیں ہوا تھا مگر اس مرتبہ نئے پاکستان میں پہلے ہی سال یہ تاریخ بھی رقم ہوگئی کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کہ جس کے پاس ملک کے تمام منقولہ اثاثے (سونا، بانڈز، زرِمبادلہ ذخائر) ہوتے ہیں، وہ ادارہ بھی خسارے کا شکار ہوگیا ہے۔
اسٹیٹ بینک نے 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال کی بیلنس شیٹ ظاہر کی تو پتا چلا کہ وہ ادارہ جو حکومت کو کئی سو ارب روپے سالانہ منافع دیتا تھا، وہ مالی سال 2019ء کے اختتام پر ایک ارب 4 کروڑ روپے سے زائد کے خسارے کا شکار ہوگیا ہے۔ واضح رہے کہ محض ایک سال پہلے ہی اسٹیٹ بینک کو 175 ارب 67 کروڑ روپے سے زائد کا نفع ہوا تھا۔
اسٹیٹ بینک کا قیام اور اس کی ذمہ داریاں
قائدِاعظم نے اسٹیٹ بینک کے قیام کا حکم نامہ جاری کرتے ہوئے اسے کرنسی نوٹوں کے اجرا، مالیاتی استحکام کو یقینی بنانے والے (سونے جیسے) ذخائر کا ذخیرہ اور ملک میں قرض کے نظام کو ریگولیٹ کرنے کے کام تفویض کیے تھے۔
بعدازاں 1956ء میں اسٹیٹ بینک کی ذمہ داریوں میں اضافہ کیا گیا۔ جس کے تحت اسٹیٹ بینک کو ملک کے زر اور قرض کا انتظام سنبھالنے، ترقی کے حوالے سے پیش گوئی کرنے، ملک کے پیداواری وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے قومی مفاد میں زری استحکام برقرار رکھنے کا کام انجام بھی دینا تھا۔
پھر 1994ء اور 1997ء میں اسٹیٹ بینک کے قوانین میں تبدیلیاں لاتے ہوئے اسے پہلے سے زیادہ خودمختار ادارہ بنایا گیا۔ ان قوانین کے تحت بینکاری صنعت سے متعلق تمام اختیارات اسٹیٹ بینک کے حوالے کردیے گئے، مالیاتی پالیسی کو آزاد کردیا گیا اور حکومت کے لیے اسٹیٹ بینک سے قرض لینے کی حد مقرر کردی گئی۔
اسٹیٹ بینک خسارے کا شکار کیوں ہوا؟
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔