کمیٹی ڈالنے والوں کے لیے کچھ ’اندر‘ کی باتیں
بابر ایک مقامی بینک میں کیشیئر ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اس اہم موقع پر بھی بینک سے قرضہ نہیں لے سکے، جب انہیں اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیمی ادارے میں داخلہ کروانے کے لیے اس کی اشد ضرورت تھی۔
اس کی وجہ یہ ٹھہری کہ چونکہ وہ عمر رسیدہ والدین، چھوٹے بھائی، بیوی اور بیٹی سمیت 5 افراد کے کنبے کے واحد کفیل ہیں، اس لیے قرضہ دینے کے لیے موزوں امیدوار نہیں ٹھہرے۔
جب بینک نے بابر کا ساتھ نہیں دیا تو اہلیہ مدد کے لیے آگے بڑھیں۔ انہوں نے بابر کو بتایا کہ وہ ’کمیٹی‘ میں حصہ لے کر پیسے جوڑ رہی تھیں۔ بابر کا کہنا ہے کہ ’اس دن کے بعد سے میں اپنی اہلیہ کو کمیٹی ڈالتے رہنے کا مشورہ دیتا ہوں‘۔
اسی طرح ایک بینکار کے گھر میں کام کرنے والی ملازمہ منظورہ جانتی ہیں کہ وہ بینکاری نظام تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہیں لہٰذا وہ بھی بابر کی اہلیہ کی طرح کمیٹیاں ڈالتی ہیں۔ کمیٹیوں کے ذریعے بچائے ہوئے پیسوں سے اس کو اپنی بیٹی کا جہیز جمع کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب میری کمیٹی کھلتی ہے تو مجھے بستر، برتن اور کپڑوں کی خریداری میں مسئلہ نہیں ہوتا۔‘
منظورہ اپنی آمدنی کا قلیل حصہ ہی کمیٹی میں جمع کروا پاتی ہیں۔ انہوں نے ای او ایس کو بتایا کہ ’میرے شوہر کے پاس کوئی مستقل ملازمت نہیں اور میری ماہانہ آمدنی اتنی زیادہ نہیں ہے، لہٰذا بڑی بڑی کمیٹیاں بھرنا ہمارے بس میں نہیں‘۔