نقطہ نظر

کمیٹی ڈالنے والوں کے لیے کچھ ’اندر‘ کی باتیں

کمیٹی کا نظام پاکستان میں بتدریج مقبول ہورہا ہے،خصوصاً ان لوگوں کیلئے جو باآسانی مالی اداروں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔

بابر ایک مقامی بینک میں کیشیئر ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اس اہم موقع پر بھی بینک سے قرضہ نہیں لے سکے، جب انہیں اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیمی ادارے میں داخلہ کروانے کے لیے اس کی اشد ضرورت تھی۔

اس کی وجہ یہ ٹھہری کہ چونکہ وہ عمر رسیدہ والدین، چھوٹے بھائی، بیوی اور بیٹی سمیت 5 افراد کے کنبے کے واحد کفیل ہیں، اس لیے قرضہ دینے کے لیے موزوں امیدوار نہیں ٹھہرے۔

جب بینک نے بابر کا ساتھ نہیں دیا تو اہلیہ مدد کے لیے آگے بڑھیں۔ انہوں نے بابر کو بتایا کہ وہ ’کمیٹی‘ میں حصہ لے کر پیسے جوڑ رہی تھیں۔ بابر کا کہنا ہے کہ ’اس دن کے بعد سے میں اپنی اہلیہ کو کمیٹی ڈالتے رہنے کا مشورہ دیتا ہوں‘۔

اسی طرح ایک بینکار کے گھر میں کام کرنے والی ملازمہ منظورہ جانتی ہیں کہ وہ بینکاری نظام تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہیں لہٰذا وہ بھی بابر کی اہلیہ کی طرح کمیٹیاں ڈالتی ہیں۔ کمیٹیوں کے ذریعے بچائے ہوئے پیسوں سے اس کو اپنی بیٹی کا جہیز جمع کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب میری کمیٹی کھلتی ہے تو مجھے بستر، برتن اور کپڑوں کی خریداری میں مسئلہ نہیں ہوتا۔‘

منظورہ اپنی آمدنی کا قلیل حصہ ہی کمیٹی میں جمع کروا پاتی ہیں۔ انہوں نے ای او ایس کو بتایا کہ ’میرے شوہر کے پاس کوئی مستقل ملازمت نہیں اور میری ماہانہ آمدنی اتنی زیادہ نہیں ہے، لہٰذا بڑی بڑی کمیٹیاں بھرنا ہمارے بس میں نہیں‘۔

ماہانہ آمدن سے جو تھوڑی بہت رقم بچتی ہے اسے وہ ایک مقامی ڈاکٹر کے ہاں ڈالی ہوئی کمیٹی میں جمع کروا دیتی ہیں۔ منظورہ اکیلی ہی نہیں بلکہ ان کے علاقے کورنگی میں کئی دیگر پڑوسی بھی ڈاکٹر پر بھروسہ کرتے ہوئے رقوم جمع کرواتے ہیں۔

زیادہ تر جگہوں پر مالی لین دین کے لیے بھروسہ اور کسی کی دی ہوئی زبان کی بہت زیادہ اہمیت نہیں، بلکہ یہ سارا کام نیک نیتی کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ کمیٹی ڈالنے کا نظام پاکستان میں بہت زیادہ مقبول ہوتا جارہا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو باآسانی مالی اداروں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔

کیا یہ نظام بھروسے کے لائق ہے؟

منظورہ کے محلے میں بھی ایک خاتون کمیٹی چلاتی ہیں لیکن ان کے محلہ دار اس خاتون سے زیادہ ڈاکٹر کی کمیٹی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس خاتون پر بھروسہ نہ کرنے کی ٹھوس وجہ بھی ہے۔ دراصل انہی کی وجہ سے ایک شادی والا گھر مشکل میں پھنس گیا تھا۔ محلے کی ایک رہائشی اپنے بیٹے کی شادی کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کمیٹی بھر رہی تھیں۔ انہوں نے سوچا تھا کہ کمیٹی کے پیسے جب آئیں گے تو وہ شادی ہال کا کرایہ ادا کردیں گی، مگر رقم کی ادائیگی میں دیر ہوگئی اور یوں اہل خانہ کی پریشانی میں اضافہ ہوگیا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثر لوگوں کے لیے یہ کمیٹیاں پیسے بچانے کا اہم ذریعہ ہیں، اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ رقم کو سنبھالنے والا شخص اعتماد کے لائق ہو۔

ایک مقامی اسکول کی صفائی ستھرائی کا کام کرنے والی سلمیٰ گزشتہ چند سالوں سے پیسے بچا رہی ہیں تاکہ وہ کاروبار شروع کرنے کے لیے اپنے شوہر کی مدد کرسکیں۔ ان کے شوہر ایک سرکاری ملازم کے گھر مالی کا کام کرتے تھے لیکن ایک حادثے میں انہوں نے اپنی ٹانگ گنوادی، جس کے بعد انہیں نوکری سے ہٹا دیا گیا اور گھریلو اخراجات کو پورا کرنے کے لیے انہیں دکان کھولنا پڑی۔

سلمیٰ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنی بزرگ رشتہ دار کے ہاں کمیٹی ڈالی ہوئی ہے جو علاقے میں ایک بھروسہ مند اور ایماندار خاتون تصور کی جاتی ہیں۔ جب یہ فیصلہ ہوجاتا ہے کہ کس فرد کا کونسا نمبر ہے، اس کے بعد وہ خاتون اس بات کا خاص خیال رکھتی ہیں کہ کمیٹی کے ہر رکن کو اس کی باری کے مطابق مہینے کی 10ویں تاریخ تک رقم ادا کردی جائے۔ اس سے ایک دن بھی کم یا زیادہ نہ ہو‘۔

سلمیٰ کے مطابق وہ خاتون اس لیے بھی بھروسہ مند ہیں کیونکہ وہ اپنا کامیاب کاروبار چلا رہی ہیں، اس لیے ایسا کوئی جواز نہیں کہ وہ لوگوں کو دھوکا دیں۔ اسی طرح منظورہ کا بھی ڈاکٹر پر بھروسہ اسی بنیاد پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر پیسے والا ہے اور 3 گھروں کا مالک بھی، اسے بھلا پیسوں کی لالچ کیوں ہوگی‘۔

شاید ان خواتین کے پاس کمیٹی کے اس بے ضابطہ نظام پر بھروسہ کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں۔

انجم احمد، تاتیانہ نینووا اور سیسیل تھیورو کی تحقیق Bringing Finance to Pakistan’s Poor کے مطابق پاکستان کی صرف 14 فیصد آبادی مالی ادارے کی خدمات اور ان کی مختلف سہولیات سے مستفید ہوتی ہے۔ پاکستان کے برعکس بنگلہ دیش کی 32، بھارت کی 48 اور سری لنکا کی 59 فیصد آبادی کو مالی اداروں تک رسائی حاصل ہے۔

تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 50 فیصد آبادی کمیٹیوں، دکانداروں، قرضہ دہندگان کی مالی لین دین یا حوالہ ہنڈی کے ذریعے پیسوں کی منتقلی و دیگر طریقوں کی صورت بے ضابطہ مالی نظام سے منسلک ہیں۔

تحقیق بتاتی ہے ملک کی وہ آبادی جو باضابطہ یا بے ضابطہ، کسی بھی مالی نظام سے منسلک نہیں ہے، اس کی بڑی وجہ آگاہی کا فقدان، ناخواندگی یا مذہبی وجوہات ہے۔ جیسے مذہب میں سود کی کوئی گنجائش نہیں۔

زیادہ پیسے زیادہ مسائل

اگرچہ زیادہ تر لوگ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کمیٹیاں ڈالتے ہیں لیکن سب کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے۔

ملک میں جو ’اپر کلاس‘ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں وہ مالی معاونت کے بجائے تفریح کے مواقع پیدا کرنے کے لیے بھی کمیٹیاں ڈالتے ہیں۔ جینیٹ کمیٹیوں کے تصور سے جڑی ’کٹی پارٹی‘ میں بڑے شوق سے حصہ لیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرے شوہر کاروباری ہیں اس لیے میں مالی طور پر تنگدستی کا شکار نہیں ہوں لیکن کٹی پارٹی سے جڑی خواتین مزے مزے کی گیٹ ٹو گیدرز، عیاشیوں اور ظہرانوں کا اہتمام کرتی ہیں بلکہ مووی پلانز بھی بناتی ہیں بس انہی خرچوں کو پورا کرنے کے لیے میں خود کو کمیٹی میں شمولیت سے روک ہی نہیں پائی‘۔

ایسی کمیٹیوں کو ’آنٹی کمیٹی‘ بھی پکارا جاتا ہے اور ان کی ایک ساکھ بنی ہوئی ہے۔ 2015ء میں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی خاتون نے مبیّنہ طور پر ایک بینکاری نظام مرتب کیا تھا۔ اس خاتون نے 40 لاکھ روپے مالیت کی کمیٹی کا گروپ تشکیل دینے کے لیے ’اونچے طبقے‘ کی خواتین سے رابطے کیے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 18 ماہ پر مشتمل اس کمیٹی کی 100 خواتین رکن بنیں جن میں سے ہر ایک نے 30 ہزار روپے اس خاتون کے پاس جمع کروائے۔

بظاہر تو وہ خاتون یہ کہتے ہوئے اسلام آباد کے سماجی حلقوں میں داخل ہوئی تھیں کہ وہ ایف 6 اور ایف 8 میں واقع ایک گھر اور 2 گیسٹ ہاؤسز کی مالکن ہے۔ وہ کٹی پارٹیاں منعقد کرواتی اور ان میں شوبز کی معروف شخصیات کو مدعو بھی کرتی۔ جلد ہی اس کمیٹی میں حصہ لینے والی خواتین نے پایا کہ انہیں اپنے حصے کی ماہانہ رقم نہیں مل رہی ہے۔ وہ تمام خواتین اس خاتون کی گھر پہنچیں لیکن تب تک دیر ہوچکی تھی اور وہ خاتون پیسے لے کر فرار ہوچکی تھی۔

لیکن اس قسم کے واقعات سے لوگوں میں کمیٹیاں ڈالنے کا رجحان زیادہ متاثر نہیں ہوتا۔

نصف آبادی

بابر کی اہلیہ، منظورہ، سلمیٰ، جینیٹ اور وہ تمام خواتین جنہیں راولپنڈی میں جھانسا دے کر لوٹا گیا، ان سب میں 2 خصوصیات یکساں ہیں۔ پہلی، ان سب نے کمیٹی میں حصہ ڈالا اور دوسری ہے ان سب کی صنف۔ مذکورہ تحقیق میں پایا گیا ہے کہ کمیٹی رکھنے یا نہ رکھنے کے فیصلے میں صنف بھی اہم کردار کرسکتی ہے۔

تحقیق بتاتی ہے کہ ’چونکہ بینک اپنے اصولوں کے مطابق صرف ان افراد (مرد و خواتین) کو قرضے فراہم کرتے ہیں جو یا تو تنخواہ دار ہوں یا پھر کاروباری آمدن کا ذریعہ رکھتے ہوں، ایسے میں محفوظ رینٹ آمدن کے ذرائع رکھنے والی خواتین سمیت عورتوں کی ایک بڑی تعداد بینکوں کی فنانسنگ اور کریڈٹ کارڈز جیسی سہولیات سے محروم ہیں‘۔

تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بینکاری نظام کا تجربہ رکھنے والے افراد میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد بہت کم ہے، اسی وجہ سے کئی خواتین کمیٹیاں رکھنے پر اکتفا کرتی ہیں کیونکہ اس طرح وہ کسی قسم کی کاغذی کارروائی سے گزرے بغیر اپنی ضروریات کے لیے بروقت رقم وصول کرسکتی ہیں۔

اب جبکہ لوگوں کی اکثریت کو باضابطہ مالی نظام کے دھارے میں شامل ہونا مشکل لگتا ہے، ایسے میں یہ کمیٹیاں بچت کے حوالے سے قدرے زیادہ بھروسہ مند معلوم ہوتی ہیں، پھر کمیٹیاں ڈالنے والوں کا کسی بھی طبقے سے تعلق کیوں نہ ہو۔ کمیٹی کی لین دین میں دھوکہ دہی اور جھانسہ دے کر پیسے لوٹنے کے حوالے سے منظرِ عام پر آنے والی خبروں کے باوجود بھی زیادہ تر لوگ اپنی کمیٹیوں پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں۔

تحقیق کاروں نے بے ضابطہ مالی شعبے اور ’پیچیدہ طریقہ کار کے تحت کام کرنے والے‘ باضابطہ مالی شبعے کے درمیان مقبولیت کے فرق کے نکتے پر اپنی تحقیق کو ختم کیا ہے، لہٰذا یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ باضابطہ نظام بے ضابطہ نظام سے تھوڑا بہت سبق حاصل کرسکتا ہے۔


یہ مضمون 17 نومبر 2019ء کو ڈان اخبار کے ایؤس میگزین میں شائع ہوا۔

سمیرا نقوی

سمیرا نقوی ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔