آسیب کہانیاں - پہلی قسط
مجھے منزل نہیں ’راستہ‘ چاہیے
تحریر و تصاویر: عبیداللہ کیہر
میں ایک سیاح ہوں۔ سیاح اور مسافر میں فرق یہ ہے کہ مسافر کو تو جلد از جلد منزل تک پہنچنے کی فکر ہوتی ہے، لیکن سیاح کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ سیاح کا تو بس ایک ہی نعرہ ہوتا ہے کہ مجھے منزل نہیں ’راستہ‘ چائیے۔ اس سے قطع نظر کہ اس راستے میں اسے فطرت کے حسین مناظر ملیں، یا معاشرے کے دردناک پہلو نظر آئیں، محبت کرنے والے مسافر نواز ملیں، یا دھتکار دینے والے بدتہذیب لوگوں سے واسطہ پڑے۔
سیاح کے لیے دنیا کے یہ سارے پہلو قابلِ قبول ہوتے ہیں۔ قدرت کے یہ سارے مظہر نہ صرف اس کے ذوقِ مشاہدہ کی تسکین کرتے ہیں، بلکہ اس کے شعور میں اضافہ کرکے اس کی زندگی میں بڑی مثبت تبدیلیاں لاتے ہیں۔
سیاحت کیا ہے؟ یہ زندگی کو سمجھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ سیاحت کی ضد ’روٹین لائف‘ ہے، یعنی روزمرہ کی یکساں اور بیزار کن مصروفیات۔ اقبال کہتے ہیں
تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا؟
ایک زمانے کی رَو، جس میں نہ دن ہے نہ رات
ایک سیاح جب زمانے کی اس بیزار کن رَو سے دامن چھڑا کر، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر، جیسے ہی گھر سے پہلا قدم باہر نکالتا ہے تو یوں سمجھیں کہ وہ زندگی سے بھی باہر آجاتا ہے۔ سیاح زندگی کا حصہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ زندگی سے باہر آکر معاشرے کا ناظر بن جاتا ہے۔
زندگی کو اگر مصوری کا ایک شاہکار، ایک پینٹنگ سمجھا جائے تو سیاح جب تک گھر سے باہر نہ نکلے، تب تک وہ خود بھی اس پینٹنگ کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ تو جو خود ہی کسی تصویر کا ایک جزو ہو، وہ خود اس تصویر کا مشاہدہ کیسے کرسکتا ہے؟
چنانچہ جب ایک عام آدمی سیاح بن کر خود کو زندگی کے لگے بندھے روٹین سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوتا ہے تو زندگی کی وہ پینٹنگ جو اب تک اس کی نگاہوں سے اوجھل رہی تھی، یکا یک پوری آب و تاب کے ساتھ اس کے سامنے آجاتی ہے۔ اب وہ حیرت سے دانتوں میں انگلی دبائے، زندگی کے روشن و رنگا رنگ مظاہر کے ساتھ ساتھ اس کے اندھیر پہلوؤں کو بھی دیکھتا جاتا ہے اور سیکھتا جاتا ہے۔ ان مشاہدات سے وہ نہ صرف شعور حاصل کرتا ہے، بلکہ معاشرے کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتا ہے۔
سیاحت صرف خوبصورت مقامات کی سیر، تفریح، ہلے گلے، موج مستی اور عیاشی کا نام نہیں، بلکہ یہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کے گہرے مشاہدے کا ذریعہ ہے۔ خوبصورت قدرتی مناظر، پہاڑ، دریا، جنگل، وادیاں، صحرا، پھول، تتلیاں، پرندے، جانور اور انسان، سیاحت کے دوران ان سب چیزوں کے مشاہدے کا موقع تو ملتا ہی ہے، مگر ان کے ساتھ ساتھ قدرت کا ایک اور مظہر بھی ہے جس کا سامنا کبھی کبھی ہوجاتا ہے۔
قدرت کا ایک عجیب اور پُراسرار مظہر، یعنی جنات، بھوت پریت اور آسیب! جی ہاں۔ ان مظاہر کا سامنا عام روز مرہ کی زندگی میں بھی ہوتا ہے اور سیاحت کے دوران بھی ہوجاتا ہے۔ رئیس فروغ کہتے ہیں
دشمن ہے ایک شخص بہت ایک شخص کا
ہاں عشق ایک نام کو ہے ایک نام سے
سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے
آسیب اپنے کام سے ہم اپنے کام سے
میں نے پاکستان سمیت کئی ملکوں کی سیاحت کی ہے۔ پاکستان کے تقریباً سارے ہی خطے دیکھ ڈالے ہیں۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبر، کشمیر اور گلگت بلتستان، تقریباً ہر علاقے میں اپنے قدموں کے نشان چھوڑے ہیں اور یہ سفر ابھی جاری ہیں۔
ان سیاحتوں میں جہاں مجھے دل کو لبھانے والے مسحور کن مناظر دیکھنے کو ملے اور مسافر نواز مہربان شخصیات سے واسطہ پڑا، وہیں کچھ سمجھ میں نہ آنے والے عجیب و غریب واقعات سے بھی پالا پڑا۔
صرف سفر میں ہی نہیں بلکہ روزمرہ زندگی میں بھی کچھ ایسی غیر مرئی چیزوں کا مشاہدہ ہوا کہ جن کو اگر بیان کیا جائے تو دوسرے تو مشکل سے یقین کریں، خود کو بھی یقین نہ آئے۔ لیکن یقین آئے یا نہ آئے، یہ واقعات بہرحال مجھ پر، میرے ہمسفر ساتھیوں اور میرے عزیز و اقارب پر گزرے ہیں۔ ایسے ہی کچھ واقعات آپ کو سنانے کا دل چاہ رہا ہے۔
وادئ کاغان کے پر اسرار ہیولے
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، میں اپنے 3 دوستوں کے ساتھ وادئ کاغان میں تھا۔ وادئ کاغان میں کچھ جگہوں پر تو موبائل سگنل ٹھیک کام کرتے ہیں لیکن اکثر جگہوں پر یا تو بالکل نہیں ہوتے یا بہت کمزور ہوتے ہیں۔
اس لیے عام طور پر لوگ یہ کرتے ہیں کہ جس مقام پر سگنل موجود ہوں فون کرنے کے لیے وہاں چلے جاتے ہیں اور ضروری بات کرکے اپنے ٹھکانے پر واپس آجاتے ہیں۔ وادئ کاغان میں ناران سے 15 سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک قصبہ ہے بٹہ کنڈی، جہاں ناران کی نسبت رش بہت کم ہوتا ہے۔ ناران کے شور شرابے اور رش سے بچنے کے لیے ہم 4 دوست بٹہ کنڈی کے پرسکون مقام پر ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ بٹہ کنڈی پُرسکون تو ضرور تھا لیکن قباحت وہی تھی کہ یہاں موبائل سگنل نہیں تھے۔ رات کے 8 بج رہے ہوں گے کہ اچانک وقاص کو یاد آیا کہ اسے تو اسلام آباد ایک ضروری کال کرنا تھی، لیکن یہاں تو سگنل ہی نہیں آرہے۔
’موبائل سگنل تو ناران میں ہی ملیں گے‘، میں بولا۔
’پھر تو میں اور فہیم گاڑی لے کر ناران کی طرف جاتے ہیں۔ راستے میں جہاں بھی سگنل آئے وہاں فون کرکے واپس آجائیں گے‘، وقاص بولا اور وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے۔
کافی دیر بعد وہ واپس آئے تو ہم دونوں گرم بستروں میں دبکے ہوئے تقریباً نیند کی حالت میں تھے، لیکن میں نے نوٹ کیا کہ ان دونوں کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں اور وہ ہم سے بات کیے بغیر اپنے کمرے میں چلے گئے۔