پہلے ’انڈا‘ آیا یا فلم؟
’سچ تو یہ ہے کہ کوئی میرا خواہشمند نہیں تھا، میں تو فقط ان اتفاقات اور حادثات کا نتیجہ ہوں، جو حیران کُن حد تک خوشگوار رہے اور یوں انسانوں نے مجھے ڈھونڈ ہی نکالا۔‘
حضرات، فلم کی کہانی کچھ ایسی ہی ہے۔ سفرِ ارتقا کے دوران انسانی ذہن میں کئی ایجادات کی خواہش مچل اٹھی ہوگی، مگر ان میں کہیں اس شے کی آرزو نہیں تھی، جسے آج ہم ’فلم‘ کہتے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ جن 2 فرانسیسی بھائیوں (لومیر برادرز) نے ’سنیماٹوگراف‘ نامی وہ مشین ایجاد کی تھی جس کے طفیل پہلے پہل چلتی پھرتی تصاویر کو کسی پردے یا دیوار پر پراجیکٹ کرنے کا امکان پیدا ہوا تھا، وہ بھی یہ کہہ کر چند برس بعد ہی سنیما یا فلم سے کنارہ کش ہوگئے تھے کہ اس کا کوئی مستقبل نہیں!
لیکن آج ہم جانتے ہیں کہ وہ غلط تھے، یکسر غلط! یہی وجہ ہے کہ ان کی عظیم ایجاد کے باوجود ہم لومیر برادرز کو آج یوں یاد نہیں کرتے، جیسے جارج میلیس یا ایڈورڈ ایس پورٹر کو کرتے ہیں، یا پھر تھامس ایڈیسن کو۔ جی ہاں، اس ممتاز سائنسدان نے صرف بلب ایجاد نہیں کیا تھا، بلکہ ان ہی کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہولی وڈ بھی معرض وجود میں آیا، مگر یہ بہت بعد کی بات ہے۔ ابھی تو ہم ماضی کے تاریک غاروں میں مقیم ہیں، اور ہمارے دل میں یہ خواہش ہمک رہی ہے کہ ہماری بنائی ہوئی تصاویر کسی روز اچانک حرکت کرنے لگیں۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اینی میشن (Animation) کا فن، جسے ہم 2D اور 3D کی وجہ سے جدید ترین فن خیال کرتے ہیں، درحقیقت سنیما سے بہت پرانا ہے۔ اس کی ابتدائی جڑیں ہمیں 32 ہزار سال پیچھے لے جاتی ہیں۔ یورپی اور ایشیا کے قدیم غاروں میں بنے فن پاروں میں ہمیں Animation کے ابتدائی امکانات دکھائی دیتے ہیں۔ اگر آپ غاروں کی ان اشکال (Cave Panting) کو اولین سنیما کہہ دیں، تو کچھ ایسا غلط نہیں ہوگا۔ (انڈونیشی جزیرے بورنیو کے ایک غار سے محققین کو بھینس کی ایک ایسی شبیہ ملی، جس کی عمر اندازاً 52 ہزار سال ہے، اسے Cave Panting کی قدیم ترین شکل تصور کیا جاتا ہے)