ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث غذائی اجناس کی قلت
سائنس فکشن میں عموماً جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہ حقیقت سے بہت دور ہوتا ہے مگر گزشتہ چند دہائیوں میں مصنوعی ذہانت کے میدان میں تیز تر ترقی کی بدولت سائنس فکشن فلموں اور ناولوں کے سیکڑوں تجربات اب حقیقت کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
اسی طرح کچھ فلموں میں زمین پر انسانی مستقبل کے حوالے سے کی جانے والی بہت سی پیشن گوئیاں بھی پوری ہوچکی ہیں۔ کرسٹو فر نولان کی شہرۂ آفاق فلم 'انٹرسٹیلر' کا آغاز بھی مستقبل کے ایک ایسے دور سے ہوتا ہے جب شدید خشک سالی اور ہوا میں موجود ایک خاص قسم کی بیماری کے باعث زمین پر غذائی اجناس کی شدید قلت ہو جاتی ہے۔
کچھ ایسی ہی منظر کشی ایک جدید سائنسی تحقیق نے بھی کی ہے کہ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث گلوبل وارمنگ کی شرح بڑھتی رہی تو اس صدی کے آخر تک دنیا میں غذائی اجناس خاص کر گندم کی شدید قلت ہوجائے گی۔ ماہرین کے مطابق اگرچہ خشک سالی دنیا کا کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے اور صدیوں سے مختلف تہذیبیں اس کے باعث فنا ہوتی رہی ہیں مگر گزشتہ 4 سے 5 عشروں کے دوران بڑے پیمانے پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں اور عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کے باعث یہ مسئلہ دنیا کے ہر خطے میں سنگین ہوتا جارہا ہے۔
ایل نینو کے اثرات کے باعث اب ہر علاقے میں بارشوں کی مقدار اور موسم تبدیل ہو چکا ہے جس کی وجہ سے وہاں اگائی جانے والی مقامی فصلیں شدید خطرے میں ہیں۔ اگائی کے موسم میں پہلے مناسب درجۂ حرارت کے ساتھ پانی بھی دستیاب ہوتا تھا جس سے فصلوں کی بویائی سے کٹائی تک کا مرحلہ بخوبی طے ہوتا تھا۔ مگر اب بے موسم کی طوفانی بارشوں، ژالہ و برف باری یا بلکل ہی بارش نہ ہونے کے باعث زرخیز زمین والے علاقوں میں بھی کسان اور زراعت کے پیشے سے منسلک افراد شدید بحران اور پریشانی کا شکار ہیں۔
کسی زمانے میں افریقہ اور ایشیا کے کچھ مخصوص علاقے ہی خشک سالی اور قحط کا شکار تھے مگر اب صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے اور امریکا میں تقریباً 81 فیصد علاقے موسمی تبدیلیوں اور بلند درجۂ حرارت کے باعث شدید خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں جبکہ متعدد ایشیائی اور افریقی ممالک میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہو چکی ہے۔
جنوبی افریقہ میں 1502 سے شدید خشک سالی اور نا موافق موسمی حالات کے باعث تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد کو قحط سالی کا سامنا ہے اور وہاں صورتحال اس حد تک ابتر ہوچکی ہے کہ ایک لاکھ 37 ہزار بچوں کو صرف اس لئے اسکول چھوڑنا پڑا کیونکہ خوراک کی کمی کے باعث ان کے لیے اسکول جانا ممکن نہیں رہا تھا۔جبکہ دوسری جانب پانی کی شدید کمی کی وجہ سے مقامی افراد اپنی فصلوں کے متعلق غیر یقینی کیفیت کا شکار ہیں۔ یہ صورتحال گزشتہ 4 برس میں نہ صرف سنگین ہو چکی ہے بلکہ اب افریقہ و ایشیا کے بعد دنیا کا ہر خطہ اسی طرح کے مسائل سے دوچار ہے۔