پاکستان

ابرار الحق کا بطور چیئرمین پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی تعیناتی کا نوٹیفکیشن معطل

سابق چیئرمین پی آر سی ایس سعید الٰہی نے ابرار الحق کے تقرر کو چیلنج کیا تھا اور اسے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
|

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور گلوکار ابرار الحق کا پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی (پی آر سی ایس) کے چیئرمین کے طور پر تقرر کا نوٹیفکیشن معطل کردیا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی عدالت عالیہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیئرمین پی آر سی ایس ڈاکٹر سعید الٰہی کی ابرار الحق کی تعیناتی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر سعید الٰہی کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں 2014 میں چیئرمین پی آر سی ایس تعینات کیا گیا تھا اور بعد ازاں 2017 میں ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی تھی، تاہم گزشتہ ہفتے صدر مملکت نے انہیں عہدے سے ہٹا دیا تھا۔

مزید پڑھیں: انتخابات میں شکست کھانے والے اداکار و گلوکار

اس حوالے سے پی ٹی آئی کے عہدیداروں نے بتایا تھا کہ سعید الٰہی کو حکومت پر کھلے عام تنقید کرنے پر ہٹایا گیا جبکہ ان پر اپنی دونوں مدت کے دوران کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات تھے۔

تاہم ڈاکٹر سعید الٰہی نے اپنی برطرفی کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے اپنی مدت ملازمت پوری نہیں کی اور انہیں عہدے سے ہٹانے کا کوئی ٹھوس جواز نہیں تھا۔

بعد ازاں سابق چیئرمین نے مفادات کے ٹکراؤ اور اقربا پروری کی بنیاد پر ابرار الحق کی تعیناتی کو 16 نومبر کو عدالت میں چیلنج کردیا تھا، ساتھ ہی انہوں نے موقف اپنایا تھا کہ ان کی مدت پوری ہونے سے قبل نئے چیئرمین کی تعیناتی غیر قانونی ہے کیونکہ ان کی مدت ملازمت مارچ 2020 میں مکمل ہونی تھی۔

انہوں نے درخواست میں کہا تھا کہ ابرار الحق کا تقرر ادارے کے مفادات سے ٹکراؤ بھی ہے کیونکہ گلوکار سے سیاست دان بننے والے ابرار الحق نہ صرف ایک ہسپتال بلکہ ایک نجی کالج چلا رہے بلکہ وہ اپنی غیر سرکاری تنظیم سہارا ٹرسٹ کے لیے عطیات بھی جمع کرتے ہیں۔

درخواست میں انہوں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ ابرا الحق کے تقرر کا نوٹیفکیشن کالعدم اور غیرقانونی قرار دیا جائے۔

عدالت میں دائر درخواست ڈاکٹر سعید الٰہی نے کہا تھا کہ پی آر سی ایس کے قواعد کے تحت انتظامیہ کے پاس تعیناتی کا اختیار تھا جبکہ پی آر سی ایس کے چیئرمین کو مدت ملازمت سے پہلے صرف اسی صورت میں ہٹایا جاسکتا تھا کہ اگر وہ خود صدر ملکت کو استعفیٰ پیش کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی برطرفی آئین میں فراہم کیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔

سابق چیئرمین کی جانب سے دائر کی گئی اس درخواست پر عدالت میں سماعت ہوئی تو اٹارنی جنرل انور منصور خان بغیر نوٹس کے ہی پیش ہوئے اور کہا کہ ڈاکٹر سعید الٰہی نے اپنی برطرفی کو چیلنج ہی نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: ابرارالحق: میوزک انڈسٹری کو کامیابی کی بلندیوں پر پہنچانے والا ستارہ

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 'برطرفی اور نئی تعیناتی کے 2 علیحدہ نوٹیفکیشن جاری کیے گئے، تاہم یہ حیران کن ہے کہ انہیں صرف نئے تقرر کا نوٹیفکیشن ملا لیکن اپنی برطرفی کا نہیں'۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'اگر صدر مملکت کے پاس تعیناتی کا اختیار ہے تو ان کے پاس (ملازمین) کو ہٹانے کا بھی اختیار ہے'۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ایکٹ کے سیکشن کے بجائے رولز کا حوالہ دے رہے ہیں، ان رولز اور پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کے ایکٹ میں فرق ہے۔

تاہم عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد ابرار الحق کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے صدر مملکت عارف علوی، سیکریٹری کابینہ ڈویژن، سیکٹری قومی صحت اور ابرارالحق کو نوٹیفکیشن جاری کردیا اور تحریری جواب طلب کرلیا کیونکہ درخواست گزار نے ان تمام افراد کو فریق بنایا تھا۔

علاوہ ازیں مذکورہ کیس کی سماعت 29 نومبر تک دوبارہ ہوگی۔