یہ ’سیاق‘ کیا ہے اور ’سباق‘ کا مطلب کیا ہے؟
’سیاق و سباق سے ہٹ کر‘۔ یہ جملہ ہمارے جملہ سیاستدانوں اور مقتدر شخصیات کا پسندیدہ بیانیہ ہے۔ ویسے ’بیانیہ‘ کا لفظ بھی اردو میں نیا نیا ہے لیکن خوب رچ بس گیا ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ جو سیاستدان بیان دینے کے بعد ’سیاق و سباق سے ہٹ کر‘ کا نعرہ لگاتے ہیں ان میں سے اکثر کو اس کا مطلب معلوم نہیں ہوگا کہ ’سیاق‘ کیا ہے اور ’سباق‘ کا مطلب کیا ہے۔ چاہیں تو پوچھ دیکھیں، اور سچی بات یہ ہے کہ ہمیں بھی کب معلوم تھا۔ ہر کس و ناکس کے منہ سے سن سن کر ہمیں بھی جستجو ہوئی۔
سیاق اور سباق (پہلا حرف بالکسر) عربی کے الفاظ ہیں اور معانی بڑے دلچسپ ہیں۔ ’سیاق‘ کا مطلب ہے رواں کرنا، چلانا، وہ ڈوری جو باز کے پاؤں میں باندھتے ہیں۔ ہمارے شکروں اور بازوں کے پیروں میں بھی ڈوریاں بندھی ہوئی ہیں۔ ’سیاق‘ کا ایک مطلب ہے علم حساب میں زبان و قلم دونوں کو زیادہ مرتبہ اور سرعت کے ساتھ حرکت ہوتی ہے۔ حساب کی یادداشت باز کی ڈوری کی طرح حساب کو بھولنے سے روک دیتی ہے، چنانچہ حساب لکھنے کے قواعد کو سیاق کہنے لگے۔ ایک مصرع ہے ’سب سے الگ سیاق ہے اپنے حساب کا‘۔