سکھر: آئی ایس آئی کے مقامی دفتر پر حملہ، سات ہلاک
سکھر: صوبہ سندھ کے اہم تجارتی شہر سکھر میں گزشتہ رات خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مقامی ہیڈکواٹر پر ہوئے حملے اور دھماکوں کے نتیجے میں حکام کے مطابق سات افراد ہلاک ہوگئے۔
ہلاک ہونے والوں میں پانچ حملہ آور، ایک انٹیلیجنس ایجنٹ اور ایک سرکاری ملازم بھی شامل ہیں۔
اگرچہ اس واقعہ کی ذمہ داری کسی گروپ یا تنظیم کی جانب سے قبول نہیں کی گئی، عالمی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کا کہنا ہے کہ اس حملے میں مذہبی شدت پسندوں کے ملوث ہونے کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔
روزنامہ ڈان کے نامہ نگار وسیم شمسی نے آج جمعرات کو شائع ہوئی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ سکھر شہر کے انتہائی حساس مقام پر قائم سیکیورٹی دفاتر اور آئی ایس آئی کے مقامی ہیڈکواٹر کو نشانہ بنایا گیا۔
سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی پر نشر ہونے والی خبروں میں بتایا گیا کہ شدت پسندی کے اس واقعہ میں کم سے کم 38 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ حملے کے دوران شدت پسندوں نے علاقے موجود سرکاری دفاتر کی عمارتوں پر قبضہ کرلیا تھا۔
تاہم کئی گھنٹوں تک سیکیورٹی فورسسز اور شدت پسندوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے بعد ان دفاتر کو خالی کروالیا گیا۔
پولیس کے مطابق، پہلا دھماکہ بیراج کالونی میں پولیس کی عمارت کے باہر کیا گیا جبکہ اس کے بعد ایک گاڑی کے ذریعے آئی ایس آئی کے دفتر کے باہر خودکش حملہ کیا گیا۔
ایک پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ خودکش حملہ آور نے پہلے اپنے آپ کو پولیس کی عمارت کے سامنے اُڑایا اور پھر دوسرے خود کش بمبار نے دھماکا خیز مواد سے بھری ایک گاڑی کو آئی ایس آئی دفتر کے باہر دھماکے سے اُڑا دیا۔
اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے سکھر پولیس کے ایک آفیسر نے کہا کہ "مسلح افراد کی جانب سے یہ حملہ انتہائی منظّم طریقے سے کیا گیا اور ہم نے علاقے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے۔"
ہسپتال ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ آئی ایس آئی ایجنٹ اور ایک سرکاری ملازم کی لاش کو ہسپتال میں منتقل کیا گیا اور اس کے علاوہ پندرہ زخمی بھی ہسپتال میں لائے گئے۔
ڈی جی رینجرز میجر جنرل رضوان اختر نے حملے میں تین شدت پسندوں اور دو خودکش حملہ آوروں سمیت کل سات افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی۔
میجر رضوان اختر کا کہنا تھا کہ پہلے دھماکے کی شدت سے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کی مرکزی دیوار اور دروازہ تباہ ہو گیا۔
اس حملے پر وزیر اعظم محمد نواز شریف اور صدر پاکستان آصف علی زرداری نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے اہلخانہ سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا ہے اور اس کی رپورٹ فوری طور پر طلب کر لی ہے۔ جبکہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے بھی سکھر میں بم دھماکوں اور فائرنگ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ذمے داران کو فوری طور پر گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ آئی ایس آئی کو اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
مئی 2009ء میں صوبہ پنجاب کے درالحکومت لاہور میں آئی ایس آئی کے مقامی دفتر پر ہونے والے حملے میں 24 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اسی سال نومبر کے دوران پشاور میں آئی ایس آئی کے دفتر کو کار بم حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں دس افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال شدت پسندوں نے کامرہ کے ہوائی اڈے پر حملہ کر کے ایک جہاز کو تباہ کر دیا تھا۔
اس سے ایک سال قبل ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نیول بیس پر ہونے والے حملے کے دوران دس گھنٹے تک جاری رہنے والی لڑائی کے نتیجے میں دس فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ یاد رہے کہ اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند گروہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرلی تھی۔
جبکہ سال 2010 میں وفاقی دارالحکومت سے متصل راولپنڈی میں آرمی کے ہیڈ کوارٹر پر کیے گئے حملے کی ذمہ داری بھی پاکستانی طالبان نے قبول کی تھی۔