’آئے تو زیادہ تھے لیکن ان کے رنگ بالکل اچھے نہیں تھے، میں نے واپس لوٹا دیے کہ اچھے اچھے رنگوں والے کپڑے لاؤ تبھی میں سی کر دوں گی۔ اب بُرے رنگ کے کپڑے تو سی کرنہیں دے سکتی نا؟‘
وہ سوچتا کہ معلوم نہیں یہ اچھے رنگ کے کپڑے کب سِلنے آئیں گے۔
گلی کے سرے پر جو انکل مقبول ہیں وہ بہت اچھے ہیں کیونکہ وہ اسے مفت میں ٹافیاں دے دیتے ہیں۔ وہ سوچتا کہ ایسے اچھے لوگ بہت کم کیوں ہوتے ہیں؟
مقبول دکان دار مقبول دکان دار کی کریانے کی دکان ہے اور اس کے تینوں بیٹے شادی کے بعد دوسرے شہروں میں جا بسے ہیں۔
اسے ایک خیال ہمیشہ بے چین رکھتا کہ کیا اسی دن کے لیے اولاد کو پڑھایا لکھایا تھا کہ شادیاں کرنے کے بعد وہ اسے اکیلا چھوڑ کر دُور چلے جائیں؟
کل ہی اس کے بڑے بیٹے سجاد کا فون آیا تھا۔
’ابّا مبارک ہو پوتا ہوا ہے، آپ لاہور کب آئیں گے ملنے؟‘، سجاد نے پوچھا۔
’جلد آؤں گا‘، اس نے بڑے روکھے انداز میں کہا تھا۔
سچ تو یہ تھا کہ وہ سجاد سے کہنا چاہتا تھا کہ ’میں کیوں آؤں ملنے؟ خود تم سال بعد آتے ہو اور مجھے بلاتے رہتے ہو۔ کبھی کوئی کہتا ہے کہ لاہور کب آؤ گے، کوئی پوچھتا ہے کہ ملتان کب آنا ہے؟ کراچی کا چکر نہیں لگایا اس سال۔ نہیں لگاتا میں چکر، مجھے بھلا کس چیز کی کمی ہے؟ میرے پاس بھی کافی دولت ہے، میں بھی پھر سے اپنا گھر بساؤں گا‘۔
لیکن اس نے ایسا کچھ نہیں کہا اور فون بند کردیا اور زلیخا کے خیالوں میں ڈوب گیا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح زلیخا اس سے شادی کرنے کے لیے مان جائے۔
بیوہ کی ڈائری آج تو مقبول دکان دار نے حد ہی کردی۔ مجھے کہتا ہے کہ آپ کا آگے زندگی گزارنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟
بڈھے کھوسٹ میرا جو بھی پلان ہو تمہارا کیا واسطہ تعلق؟ کاش میں نے اس سے 10 ہزار کا قرض سامان نہ خرید رکھا ہوتا تو منہ توڑ دیتی۔ لیکن سلائی کے لیے اس ہفتے صرف 2 ہی جوڑے آئے ہیں۔ شادیوں کا سیزن آنے والا ہے رقم جمع ہوتے ہی سب سے پہلے اس مقبول کا قرض لوٹاؤں گی۔
بیوہ کا بیٹا رُستم کی ماں نے اس کا جوتا تیسری دفعہ مرمت کرایا تھا اور اب کی بار موچی نے دونوں جوتوں کا تلوا بدل دیا۔ ایک جوتے کے نیچے کچھ موٹا چمڑا لگایا اور دوسرے پر پتلا جس کی وجہ سے اسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کی ایک ٹانگ لمبی اور دوسری چھوٹی ہے۔
معلوم نہیں یہ اچھے رنگوں کے کپڑے سِلنے کب آئیں گے؟
مقبول دکان دار اس نے ایک روز رشتہ کرانے والی خاتون سے بات کی کہ وہ زلیخا سے اس کے رشتے کی بات کرے اور کہے کہ راشن کے جتنے روپے باقی ہیں وہ سب چھوڑنے کو تیار ہے۔ دوسرا اس کے مالک مکان کو کرایہ بھی ادا کردے گا۔ اسے امید تھی کہ اس کا دل نرم ہوجائے گا ورنہ تو وہ اسے یوں دیکھتی تھی جیسے پتھر اس کے سر پر مارنا چاہتی ہو۔
بیوہ کی ڈائری وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ مقبول دکان دار نے اپنی اصلیت دکھا دی۔ آج رشتہ کرانے والی خاتون مقبول کا رشتہ لے کر آئی تھی۔ میرا جی چاہا کہ خاتون کا منہ توڑ دوں کہ اسے ذرا شرم نہ آئی اس بوڑھے کا رشتہ لاتے ہوئے، لیکن پھر خیال آیا کہ جب تک شادیوں کا سیزن نہیں آتا، زیادہ کپڑے سِلنے کے لیے نہیں آئیں گے اور پھر اس موئے پیٹ کی آگ بھی تو بجھانی ہے۔ چلو میں تو بھوکی سو لوں گی لیکن بیچارے رُستم کا کیا قصور ہے وہ کیوں فاقے کاٹے؟ میں نے کہہ دیا ہے سوچنے کے لیے کچھ مہلت چاہیے۔
بیوہ کا بیٹا رستم بہت خوش تھا کیونکہ اس کے اچھے انکل مقبول نے اس کے خراب جوتے دیکھے تو وہ اسے بازار لے گئے اور وہاں سے نئے جوتے اور یونیفارم خرید کردیا۔ اب وہ اس انتظار میں تھا کہ کب اگلا دن شروع ہو اور وہ یہ جوتے اور یونیفارم پہن کر اسکول جائے۔
مقبول دکان دار زلیخا نے سوچنے کے لیے کچھ مہلت مانگی تھی اور مقبول دکان دار سے ایک پَل بھی نہیں گزر رہا تھا۔ اس نے زلیخا کے بیٹے کو جوتے اور یونیفارم لے کر دیے تھے تاکہ زلیخا کے دل میں گھر کرسکے۔ اس کا خیال تھا کہ شادی کے بعد وہ اس لڑکے کو بورڈنگ اسکول میں داخل کرادے گا۔
بیوہ کی ڈائری آج رُستم آیا تو اس کے ہاتھ میں یونیفارم اور جوتوں کا ڈبہ تھا اور یہ سب اسے مقبول دکان دار نے خرید کر دیا تھا۔ میرا جی چاہا کہ دونوں چیزیں لے کر جاؤں اور مقبول کے منہ پر کھینچ کر دے ماروں، آخر اس نے کیا مجھے بھکاری سمجھ رکھا ہے؟ ابھی تو میرے ہاتھ سلامت ہیں سلائی کڑھائی کرلیتی ہوں لیکن پھر رُستم کا ہنستا مسکراتا چہرہ سامنے آگیا۔ وہ یہ دونوں چیزیں حاصل کرکے بہت خوش تھا۔ بہت دنوں بعد میں نے اسے اتنا خوش دیکھا تھا اور ویسے بھی میں روز جھوٹ بول بول کر اب تھک چکی تھی اسی لیے دونوں چیزیں رکھ لیں۔
معلوم نہیں یہ شادیوں کا سیزن کب آئے گا؟
محمد جمیل اختر
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔