افسانہ: ایک بیوہ کی سرگزشت
یہ زلیخا کی کہانی ہے جس کی عمر 35 سال ہے اور وہ ایک بیوہ ہے۔ ایک سال پہلے اس کا شوہر جو ایک موٹر مکینک تھا شہر سے کچھ سامان خریدنے گیا اور وہیں اس کا ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا۔
زلیخا نے میٹرک تک تعلیم حاصل کر رکھی تھی لیکن اس زمانے میں میٹرک کا نوکری حاصل کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ اس کی ماں نے اسے سلائی کڑھائی کا کام بھی سکھا کر رخصت کیا تھا جس کی وجہ سے آج اس کا اور اس کے 8 سالہ بیٹے رُستم کا پیٹ پَل رہا تھا۔
بھری دنیا میں کوئی نہیں تھا جس سے زلیخا اپنے دکھ درد بانٹ سکتی، لہٰذا وہ بازار سے ایک ڈائری خرید لائی اور جب رات کو رُستم سو جاتا تو وہ ڈائری لکھا کرتی تھی، جس سے اس کے دل کا غبار ہلکا ہوجاتا۔
زلیخا کی ڈائری
مجھے نہیں معلوم کہ ڈائری کیسے لکھی جاتی ہے، رشید کے ہوتے ہوئے کبھی ڈائری لکھنے کا خیال ہی نہیں آیا۔ آہ میرے پیارے رشید! تم نے تو ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائیں تھی اور اب دیکھو میں اور تمہارے جگر کا ٹکڑا رُستم بھری دنیا میں اکیلے رہ گئے ہیں۔
ایک مرد کے بغیر عورت کس قدر تنہا ہوجاتی ہے یہ مجھے اب معلوم ہوا ہے۔ مقبول دکاندار مجھے بُری نظروں سے دیکھتا ہے حالانکہ اس بڈھے کے پوتے پوتیاں ہیں۔ معلوم نہیں یہ کچھ مردوں کی ہوس ختم کیوں نہیں ہوتی۔ میں چاہتی ہوں کہ اس کی دکان سے کچھ نہ خریدوں لیکن اس کے علاوہ اتنے ادھار پر راشن کون دے گا؟
بعض دفعہ ہفتے میں 3، 4 کپڑوں کے جوڑے سلنے کو آجاتے ہیں لیکن کوئی ہفتہ تو یونہی نکل جاتا ہے۔ شادیوں کا سیزن آنے والا ہے، امید ہے کچھ پیسے ہاتھ آجائیں گے۔ مالک مکان کا 3 ماہ کا کرایہ باقی ہے تو وہ چُکا دوں گی۔ بس دعا ہے کہ شادیوں کے سیزن سے پہلے بارشوں کا سیزن نہ شروع ہو ورنہ چھتیں ٹپکنے لگیں گی اور سبھی رقم ادھر خرچ ہوجائے گی، لیکن بارشیں بھی آخر کب تک رُک سکتی ہیں؟ اب مالک مکان خود تو ہمیں یہ کام کروا کر دے گا نہیں کہ ہم تو اس کے لیے اضافی بوجھ ہیں۔
اور کیا لکھوں؟ رُستم سو رہا ہے، میں چاہتی ہوں جلد یہ پڑھ لکھ کر بڑا افسر بن جائے۔ رشید تمہارے ہوتے ہوئے مجھے محسوس ہوتا تھا کہ وقت بہت تیزی سے کَٹ رہا ہے لیکن ابھی تمہیں گئے سال گزرا ہے اور مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک صدی گزار بیٹھی ہوں اور رُستم جو تیزی سے بڑا ہورہا تھا اس کی نشونما بھی رُک سے گئی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اس کا قد ایک انچ بھی بڑھا ہوگا۔ اس کا یونیفارم اور جوتے پرانے ہوچکے ہیں لیکن میرے پاس ابھی رقم نہیں ہے۔ میں باقاعدگی سے ہر سُوٹ سے چند روپے جوتوں اور یونیفارم کے لیے بچا کر رکھ رہی ہوں۔ بس چاہتی ہوں کہ وہ مجھ سے ہر صبح یہ سوال نہ پوچھا کرے کہ آج زیادہ کپڑے سلنے آئیں گے؟
اب اس معصوم بچے کو کیا جواب دوں۔
ڈائری لکھتی رہوں تو صبح ہوجائے، نیند اب میری آنکھوں سے رُوٹھ گئی ہے، آتی بھی ہے تو ہر آہٹ پر چونک کر اُٹھ بیٹھتی ہوں۔
اکیلی عورت کے دکھ کون سمجھ سکتا ہے کہ جس پر ایک خوف دن رات طاری رہتا ہو۔
یہ تو ایک ناختم ہونے والے دکھ ہیں آخر ڈائری میں کیا کیا لکھا جائے؟
بیوہ کا بیٹا
رُستم باقاعدگی سے اسکول جاتا ہے لیکن اس کے جوتے اور یونیفارم پرانا ہے۔ اس کی ماں نے اس سے کہہ رکھا ہے کہ جب بہت سے کپڑے سِلنے کو آئیں گے تو وہ اسے نئے جوتے اور یونیفارم ضرور خرید کر دے گی۔ وہ روز صبح گھر سے نکلنے سے پہلے ماں سے پوچھتا ہے کہ آج زیادہ کپڑے سلنے کو آئیں گے؟
’ہاں ضرور میرے چاند۔ آج ڈھیر سارے کپڑے آئیں گے‘، اس کی ماں جواب دیتی۔
واپسی پر وہ پوچھتا ’ماں آج کتنے کپڑے آئے تھے؟‘
وہ سوچتا کہ معلوم نہیں یہ اچھے رنگ کے کپڑے کب سِلنے آئیں گے۔
مقبول دکان دار
مقبول دکان دار کی کریانے کی دکان ہے اور اس کے تینوں بیٹے شادی کے بعد دوسرے شہروں میں جا بسے ہیں۔
کل ہی اس کے بڑے بیٹے سجاد کا فون آیا تھا۔
’ابّا مبارک ہو پوتا ہوا ہے، آپ لاہور کب آئیں گے ملنے؟‘، سجاد نے پوچھا۔
’جلد آؤں گا‘، اس نے بڑے روکھے انداز میں کہا تھا۔
بیوہ کی ڈائری
بیوہ کا بیٹا
معلوم نہیں یہ اچھے رنگوں کے کپڑے سِلنے کب آئیں گے؟
مقبول دکان دار
بیوہ کی ڈائری
بیوہ کا بیٹا
مقبول دکان دار
بیوہ کی ڈائری
معلوم نہیں یہ شادیوں کا سیزن کب آئے گا؟
مقبول دکان دار
بیوہ کی ڈائری
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔