اب سمجھ آیا کہ حفیظ شیخ میڈیا کے سامنے کیوں نہیں آتے؟
اگر آپ بھی کبھی یہ سوچتے تھے کہ آخر وزیرِاعظم کے مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ کیمرے کے سامنے اتنا کم کیوں دکھائی دیتے ہیں؟ تو یقیناً آپ کو اس کا جواب پیر کے روز مل گیا ہوگا۔
انہوں نے جب فی کلو ٹماٹر کی قیمت 17 روپے بتائی تو ملک بھر میں اس سے متعلق بہت سے لطیفے بنائے گئے، مگر مجھے ان کی بات سن کر پاکستان کے ایک (ریٹائرڈ) ماہرِ معاشیات سے ہونے والی مختصر گفتگو یاد آگئی۔ میں ان صاحب کا نام یہاں نہیں لکھ سکتا کیونکہ انہوں نے بند کیمروں میں ہونے والی بات چیت کے اس خاص حصے کو ان کے نام سے منسوب کرکے لکھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’یہ لوگ شرح نمو میں قلیل المدتی ابھار کو تخلیق دیتے ہیں۔ وہ بھی اس پیسے سے جو ان کا ہوتا ہی نہیں، اور پھر جب شرح نمو میں اچانک سے ہونے والا زبردست ابھار ختم ہوتا ہے تو یہ اس کی لاگت مہنگائی کے ذریعے وصول کرتے ہیں‘۔
وہ یہاں کسی ایک مخصوص حکومت کا تذکرہ نہیں کر رہے تھے بلکہ ان کا اشارہ دہائیوں سے رائج اس رجحان کی طرف تھا جسے انہوں نے بڑے قریب سے دیکھ رکھا تھا۔ ملکی تاریخ میں جب بھی نمو میں قلیل المدتی زبردست ابھار آیا ہے تو اس کے پیچھے اٹھنے والی شدید مہنگائی کی لہر کو دراصل جان بوجھ کر پیدا کیا جاتا رہا ہے تاکہ بغیر پیسوں کے تخلیق کی جانے والی شرح نمو میں ابھار کی قیمت وصول کی جاسکے۔