اب سمجھ آیا کہ حفیظ شیخ میڈیا کے سامنے کیوں نہیں آتے؟

اگر آپ بھی کبھی یہ سوچتے تھے کہ آخر وزیرِاعظم کے مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ کیمرے کے سامنے اتنا کم کیوں دکھائی دیتے ہیں؟ تو یقیناً آپ کو اس کا جواب پیر کے روز مل گیا ہوگا۔
انہوں نے جب فی کلو ٹماٹر کی قیمت 17 روپے بتائی تو ملک بھر میں اس سے متعلق بہت سے لطیفے بنائے گئے، مگر مجھے ان کی بات سن کر پاکستان کے ایک (ریٹائرڈ) ماہرِ معاشیات سے ہونے والی مختصر گفتگو یاد آگئی۔ میں ان صاحب کا نام یہاں نہیں لکھ سکتا کیونکہ انہوں نے بند کیمروں میں ہونے والی بات چیت کے اس خاص حصے کو ان کے نام سے منسوب کرکے لکھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’یہ لوگ شرح نمو میں قلیل المدتی ابھار کو تخلیق دیتے ہیں۔ وہ بھی اس پیسے سے جو ان کا ہوتا ہی نہیں، اور پھر جب شرح نمو میں اچانک سے ہونے والا زبردست ابھار ختم ہوتا ہے تو یہ اس کی لاگت مہنگائی کے ذریعے وصول کرتے ہیں‘۔
وہ یہاں کسی ایک مخصوص حکومت کا تذکرہ نہیں کر رہے تھے بلکہ ان کا اشارہ دہائیوں سے رائج اس رجحان کی طرف تھا جسے انہوں نے بڑے قریب سے دیکھ رکھا تھا۔ ملکی تاریخ میں جب بھی نمو میں قلیل المدتی زبردست ابھار آیا ہے تو اس کے پیچھے اٹھنے والی شدید مہنگائی کی لہر کو دراصل جان بوجھ کر پیدا کیا جاتا رہا ہے تاکہ بغیر پیسوں کے تخلیق کی جانے والی شرح نمو میں ابھار کی قیمت وصول کی جاسکے۔
مشرف کے دور میں اچانک ہونے والے شرح نمو میں اضافے نے ہمیں ٹیلی کام انقلاب سے نوازا۔
پھر حال ہی میں نواز شرف اور اسحٰق ڈار کے دور میں شرح نمو میں ہونے والے اضافے کے باعث توانائی اور بجلی کی پیداوار کے لیے ایندھن کی تیاری و دیگر شعبوں میں خوب سرمایہ کاریاں کی گئیں۔
پیپلزپارٹی کی یہ بدقسمتی ہی کہیے کہ اسے ہمیشہ ایسے وقتوں میں اقتدار نصیب ہوا جو ملک کو اس قسم کا کوئی بھی ابھار دینے کا متحمل نہیں ہوتا تھا۔
اس کے بعد ہماری زیادہ تر اقتصادی گفتگو کا محور یہ بات بنی رہی کہ کس کے دور میں بڑا اور بہتر ابھار آیا۔
جبکہ مہنگائی پر ہونے والی گفتگو کا مرکزی نکتہ یہی بنا رہا کہ قیمتوں میں اضافے کا تعلق ’لاگت‘ سے ہے ’طلب‘ سے نہیں، اور اسی وجہ سے روایتی نسخے کے طور پر بلند شرح سود کا سہارا نہیں لینا چاہیے، جو ہمارے یہاں عام علاج سمجھا جاتا ہے۔
بلاشبہ ’مہنگائی غریبوں کے لیے ٹیکس ہے‘ کا محاورہ دیگر ریاستوں کے مقابلے میں پاکستان پر زیادہ صادق آتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ شرح نمو کے ابھار کے مختصر عرصے کے بعد مہنگائی میں شدید اضافے کے پیچھے ’لاگت کی وصولی‘ کے عناصر شامل ہوتے ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ ہر جگہ یہی معاملہ ہو۔
مثلاً مشرف دور کے ابھار کے بعد مہنگائی میں اضافے کا تعلق مالیاتی عناصر سے تھا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ ہماری تاریخ کے اس سب سے زیادہ مصنوعی ابھار کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بہت سارا پیسہ تخلیق کیا گیا تھا، لہٰذا مہنگائی پر ضابطہ لانے کے لیے اضافی پیسے کو نظام سے واپس لینا ضروری ہوگیا تھا۔
موجودہ مہنگائی کی کہانی اس سے تھوڑی مختلف ہوسکتی ہے کیونکہ اس کے پیچھے بقول اقتصادی ماہرین ’غیر مالیاتی عناصر‘ کارفرما ہیں، فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ایندھن کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ اس کی ایک مثال ہے۔
صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@
ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com