’بھٹو بیچارہ تو دو ڈھائی چپاتی کھاتا ہے، وہ پورا ملک کیسے کھا سکتا ہے؟‘
1972ء میں جیل میں قیدیوں کے درمیان ایک بہت بڑا ہنگامہ ہونے کی وجہ سے اس فیکٹری کی خود کار مشینیں تباہ ہوچکی ہیں۔
یہ 2 ماؤں کی اپنے بیٹوں سے جیل میں ملاقات کی کہانی ہے جن میں سے ایک ماں کا بیٹا پھانسی چڑھا دیا گیا اور دوسری ماں کا بیٹا 47 سال سے ذہنی عارضے کا شکار ہے اور تاحال اس کا علاج جاری ہے۔
کراچی سینٹرل جیل کی اس حوالے سے بڑی اہمیت ہے کہ یہاں پر بڑے بڑے سیاسی قائدین مختلف ادوار میں اسیر یا نظر بند رہے ہیں۔ ایک نظر کراچی سینٹرل جیل کی تاریخ پر ڈالتے ہیں۔
کراچی کی اوّلین جیل 1847ء میں سابقہ بندر روڈ اور موجودہ ایم اے جناح روڈ پر کراچی ڈسٹرکٹ جیل کے نام سے تعمیر ہوئی تھی۔ 50 سال تک یہ اسی نام سے استعمال ہوتی رہی۔ بندر روڈ پر جہاں آج سٹی کورٹ کی عمارت قائم ہے اسی مقام پر ڈسٹرکٹ جیل موجود تھی۔ سٹی کورٹ کے عقبی حصے میں موجود سڑک کو اب بھی جیل روڈ کہا جاتا ہے۔