نقطہ نظر

’ہمیں ڈر ہے کہ آن لائن ویب سائٹس ہمارا کام بند نہ کردیں’

’بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا کہ ٹوکن کی رقم ادا کرنے والے خریداروں کو فروخت کنندہ سے کوئی جواب ہی موصول نہیں ہوا‘۔

سلیم اقبال کے دن کی شروعات فون کال کے انتظار کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ ہر روز پرانی گاڑی بیچنے کے خواہشمندوں یا پھر سودا پکا کرنے والوں کی فون کالز کے منتظر رہتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’چونکہ اکیلے سارا کام سنبھالنا میرے لیے بہت ہی کٹھن ہوگیا تھا اس لیے میں نے چند سال قبل 2 ایجنٹس کے ساتھ شراکت قائم کرلی‘۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’دیگر لوگوں کے ساتھ کام کرنے سے آپ زیادہ لوگوں سے رابطے میں آسکتے ہیں، اور زیادہ روابط کا مطلب ہے زیادہ سودے۔ ویسے بھی گاڑیوں کے سودے بڑی بڑی رقوم پر مشتمل ہوتے ہیں، اس لیے گروہ کی شکل میں کاروبار کرنا ہی زیادہ محفوظ ثابت ہوتا ہے‘۔

فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ فون پر بات کرنے کے بعد سلیم کے چہرے پر سکون نظر آرہا تھا۔ ان کے شراکت دار ایجنٹ فیصل نے فون پر بتایا کہ ہارون صاحب بالآخر 4 لاکھ میں اپنی 2006 ماڈل کی سوزوکی آلٹو بیچنے پر راضی ہوچکے ہیں۔ یہ سودا 2 روز سے رُکا ہوا تھا۔

استعمال شدہ گاڑیاں خریدنے میں دلچسپی رکھنے والے افراد نارتھ ناظم آباد کراچی کے کار بازار کا رخ کرتے ہیں—فیصل مجیب / وائٹ اسٹار

گاڑی فروخت کرنے والے سے ہری جھنڈی ملنے میں بعض اوقات ہفتہ بھی لگ سکتا ہے۔ سودا پکا ہوجانے کے بعد دوسرا ایجنٹ یاسر محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن میں اپنی جان پہچان کی مدد سے گاڑی کی منتقلی اور ٹیکس کلیئرنس جیسے مختلف معاملات سنبھالتا ہے۔

سلیم بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ ’اس کام میں 3 ایجنٹوں کی شمولیت کے سبب ہم ایک ماہ میں تقریباً 10 سے 15 گاڑیاں فروخت کرلیتے ہیں‘۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اکلوتا ایجنٹ اتنی بڑی تعداد میں گاڑیاں فروخت نہیں کرسکتا کیونکہ ایک ایجنٹ محدود لوگوں کے ساتھ ہی روابط رکھتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’جو اس کام میں زیادہ وقت صرف کرتا ہے، اس کے اتنے ہی زیادہ روابط قائم ہوتے ہیں اور لوگوں کا اعتماد حاصل ہوتا ہے‘۔

لوگوں سے تعلقات کے ساتھ ساتھ ان تمام لوگوں کو ہر قسم کی صورتحال کو اپنے فائدے میں بدلنے کا فن بھی آنا چاہیے جو استعمال شدہ گاڑیوں کا کام کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے اعلیٰ معیار کی تعلیم بھلے ہی حاصل نہیں کی ہو مگر یہ کمال کے ہوشیار ہوتے ہیں۔

سلیم استعمال شدہ گاڑیوں کے کاروبار سے گزشتہ 40 برس سے وابستہ ہیں۔ مگر اب اس کاروبار میں کافی تبدیلی آرہی ہے۔ اب یہ صرف رابطے پر مبنی کاروبار نہیں رہا۔ اس کاروبار سے وابستہ چند افراد کو تو یہ فکر لاحق ہوگئی ہے کہ کہیں او ایل ایکس (OLX) اور پاک وہیلز جیسی ویب سائٹس کی مقبولیت ان کا کاروبار ہی نہ کھا جائیں۔ بدلتی پالیسیوں، مہنگائی اور بے روزگاری کی ابھرتی لہر نے استعمال شدہ گاڑیوں کا سودا کرنے والوں کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔

بدلتی ہوئی مارکیٹ

سلیم مقامی اور باہر سے آنے والی استعمال شدہ گاڑیوں کے سودے کرتے ہیں، لیکن یہ سال کاروبار کے حوالے سے کافی سست ثابت ہوا ہے۔

رواں برس درآمد شدہ گاڑیوں پر سخت قوانین اور ریگولیشن کے اطلاق کی وجہ سے استعمال شدہ گاڑیوں کی خرید و فروخت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ جنوری میں حکومت نے اعلان کیا تھا کہ نئی / استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدات پر ڈیوٹی اور ٹیکس بیرون ملک پاکستانی شہریت رکھنے والے یا مقامی وصول کنندہ کو غیر ملکی زرِمبادلہ کی صورت ادا کرنی ہوگی۔ یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ ڈیوٹی اور ٹیکس کی ادائیگی کے لیے ترسیلِ زر کی رقم باہر سے گاڑی بھیجنے والے پاکستانی شہریت کے حامل شخص کے اکاؤنٹ سے بھیجنا ضروری ہوگی۔

کار ڈیلرز کے مطابق گاڑیوں کی درآمدات اب تقریباً ناممکن بن گئی ہے جس کی وجہ سے حکومت کسٹم ڈیوٹی کی مد میں وصول کی جانے والی اچھی خاصی رقم سے محروم ہوجائے گی۔ بقیہ نقصان ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہونے کے باعث پہنچا ہے، کیونکہ اس طرح درآمد کی جانے والی استعمال شدہ گاڑیاں بہت زیادہ مہنگی پڑتی ہیں۔

درآمد کی جانے والی گاڑیوں کی بات کی جائے تو گزشتہ برس جولائی اور اگست میں ہونے والی درآمدات کے مقابلے میں 2019ء کے جولائی اور اگست میں 80 فیصد سے زائد گرواٹ دیکھنے کو ملی۔ اور اگر ان 2 سالوں میں پڑنے والے مجموعی فرق کو دیکھیں تو 50 فیصد سے زائد کمی ہوچکی ہے۔

ٹویوٹا وٹز جیسی 3 سے چار سال تک استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمت 16 لاکھ سے بڑھ کر 19 لاکھ تک پہنچ چکی ہے، اور اگر ڈائی ہیٹسو میرا کی بات کریں تو اس کی قیمت 13 سے 14 لاکھ روپے سے بڑھ کر 16 لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہے۔

آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن (اے پی ایم ڈی اے) کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد کہتے ہیں کہ، باہر سے آنے والی استعمال شدہ گاڑیوں کا کاروبار بند گلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کرائے کی جگہوں پر استعمال شدہ گاڑیوں کے شورومز چلانے والے افراد یا تو مشکل حالات میں اپنا کاروبار جیسے تیسے جاری رکھے ہوئے ہیں یا پھر اخراجات کو پورا نہ کر پانے کی وجہ سے وہ اپنے شورومز بند کرنے پر مجبور ہیں۔

بدلتی پالیسیوں کے سبب ان شورومز اور سلیم جیسے افراد کے کاروبار کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ استعمال شدہ گاڑیوں کے سودے کے لیے آن لائن پلیٹ فارم کی آمد کے بعد گاڑیوں کی مارکیٹ اور بھی سکڑتی جارہی ہے۔

آن لائن خدمات

آن لائن خدمات کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس سے گاڑیوں کی خرید و فروخت بہت آسانی سے ہوجاتی ہے۔ لوگ اپنے گھروں یا دفاتر میں بیٹھے آن لائن فروخت کے لیے پیش کی گئی گاڑیوں کی تفصیل اور تصاویر دیکھنے کے ساتھ ساتھ قیمتوں کا موازنہ اور سودا طے بھی کرسکتے ہیں۔ کئی ویب سائٹس تو گاڑی کی مکمل جانچ پڑتال کرنے اور دستاویزی عمل میں خریدار اور فروخت کنندہ دونوں کو سہولت بھی فراہم کرتی ہیں۔

زوہیب مظفر نامی ایک اور کار سیلز مین سمجھتے ہیں کہ یہ پلیٹ فارمز خریدار، فروخت کنندہ اور ڈیلرز تینوں کے لیے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے جلدی سودا کرنے کے لیے خود ڈیلرز بھی بعض اوقات اپنے کلائینٹ کی گاڑی کی تفصیلات ان آن لائن پلیٹ فارم پر ڈال دیتے ہیں۔ تاہم فطری طور پر ٹیکنالوجی کی اچھی سمجھ بوجھ رکھنے والے صارفین سودے میں ان ایجنٹوں کی شمولیت سے بچنے کے لیے خود ہی ویب سائٹ پر اپنی گاڑیاں فروخت کے لیے پیش کردیتے ہیں۔

مگر زوہیب آن لائن پلیٹ فارمز کو اپنے کاروبار کے لیے خطرہ نہیں سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق انٹرنیٹ پر خرید و فروخت میں اعتماد ایک اہم مسئلہ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا کہ ٹوکن کی رقم ادا کرنے والے خریداروں کو فروخت کنندہ سے کوئی جواب ہی موصول نہیں ہوا‘۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ صارفین کو اس وقت شدید مایوسی ہوتی ہے جب وہ ویب سائٹ پر دی گئی گاڑی کی خوبصورت تصویر کے برخلاف حقیقت میں نہایت مختلف گاڑی دیکھتے ہیں۔

خریدار کراچی کی بازار میں استعمال شدہ گاڑیوں کا جائزہ لے رہے ہیں

سلیم سمجھتے ہیں کہ یہی ایک وجہ ہے جس کی وجہ سے صارفین اب بھی اپنے اور ذوہیب جیسے سیلز مین کا رخ کرتے ہیں۔ ایجنٹوں میں گاڑیوں کی صنعت سے متعلق سمجھ بوجھ اور اعتماد کے باعث آن لائن کی سہولت ماند پڑجاتی ہے۔

سلیم کہتے ہیں کہ ’کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ خریدار استعمال شدہ گاڑیوں کا اچھی طرح جائزہ لینے اور آن لائن سروسز کے نمائندگان سے سودا طے کرنے کے لیے ایجنٹوں کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ میں چاہوں گا کہ خریدار کسی مکینک اور ڈینٹر کو دکھائیں اور اس کے بعد سودا پکا کریں۔ ہم سب سے پہلے اس بات کی تسلی کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ خریدار اور فروخت کنندہ کے قومی شناختی کارڈز اور گاڑی کے تمام کاغذات میں کوئی گڑبڑ نہ ہو اور پھر حکومتی محکمہ جات سے کلیئرنس حاصل کرتے ہیں‘۔

سلیم کے مطابق ان جیسے سیلز مین کی اس کاروبار میں اہمیت ہمیشہ قائم رہے گی کیونکہ وہ ایسے بہت سے معاملات سے آشنا ہیں جو آن لائن سہولت حاصل کرنے والے سادہ شخص کی سمجھ سے بالا ہیں۔

ان گاڑیوں کے ساتھ مسئلہ کہاں ہے؟

گاڑی خریدنے سے پہلے اس کی حالت کا اندازہ لگانا اور اس سے متعلق کچھ مخصوص معاملات کو سمجھنا ایک مشکل کام ہے۔ اگر آپ کو یہ سننے کو ملتا ہے کہ ’گاڑی میں ہلکی سی آواز ہے‘، تو یہاں آپ کو یہ نہیں بتایا جارہا کہ گاڑی کے کسی حصے میں خرابی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے پاس موجود اس گاڑی کے ریکارڈ میں کہیں کوئی مسئلہ ہے۔ سی پی ایل سی سے آواز آنے سے مراد یہ ہے کہ یا تو گاڑی چوری ہونے کے بعد ریکور کی گئی ہے یا پھر ڈکیتی یا کسی دوسرے جرم میں استعمال ہونے پر اس گاڑی کی تفصیلات پولیس مقدمے میں درج ہیں۔ ان 2 باتوں کے علاوہ یہ مطلب بھی نکالا جاسکتا ہے کہ گاڑی کی چیسز یا انجن نمبر وغیرہ میں تضاد موجود ہے۔

لیکن اگر کوئی ایجنٹ آپ کو یہ اطلاع دے کہ ’سی پی ایل سی میں کوئی آواز نہیں ہے‘ یا ’گاڑی صاف ہے‘ تو اس کا مطلب ہے کہ سودا پکا کیا جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ یہ جان کر تعجب ہوتا ہے کہ آپ کی گاڑی حسب نسب رکھتی ہے۔ وہ آپ کو بھرپور اعتماد سے بتاتے ہیں کہ ’کار نسلی ہے/ یار نسل ہے گاڑی۔‘ یہاں لفظ ’نسل‘ سے مراد کیا ہے یہ بتانا تو مشکل ہے لیکن اس کا یہی مطلب نکالا جاسکتا ہے کہ یہ گاڑی ہر لحاظ سے ٹھیک ہے اور خریدی جاسکتی ہے۔

جیسے ہی خریداروں اور فروخت کنندہ کے درمیان سودا طے پا جاتا ہے تو یہ لوگ ٹیکس ادائیگی کے پرانے مسائل کا حل بھی نکال کردیتے ہیں۔ اگر فروخت کنندہ نے برسوں سے ٹیکس ادا نہیں کیے ہیں تو ٹیکس کی رقم آخری ادائیگی میں سے کاٹ لی جاتی ہے، البتہ یہ خریدار پر ہے کہ وہ فوراً ٹیکس ادا کرے یا پھر دیر سے۔

ایجنٹوں اور صارفین دونوں کے لیے گاڑیوں کے اسٹیٹس کی تصدیق کے لیے سی پی ایل سی اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی ویب سائٹ کی مدد سے گاڑیوں کے کلیئرنس اسٹیٹس کی تصدیق کرنا آسان ہوگیا ہے۔ اگر یہ باضابطہ ذرائع کسی گاڑی کو گمشدہ دکھاتے ہیں تو یہ خریدار/ فروخت کنندہ کے لیے باعثِ تشویش بات ہے۔ تاہم تجربہ کار ایجنٹ گاڑی کے کاغذات کا جائزہ لے کر ہی اس قسم کی باعثِ تشویش باتوں کا باآسانی پتا لگانے میں دیر نہیں کریں گے۔

مساوی میدان

کئی خریدار استعمال شدہ گاڑیاں خریدنے سے پہلے ایجنٹوں سے مشورہ ضروری سمجھتے ہیں۔

کار فرسٹ کے نام سے ڈیلرز کے لیے بنائے گئے آٹومیٹیڈ پلیٹ فارم کے شریک بانی اور سی ای او راجہ مراد خان اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ سلیم اور زوہیب جیسے لوگ استعمال شدہ گاڑیوں کی فروخت میں کس قدر کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔

کار فرسٹ پاکستان میں رجسٹر اور استعمال شدہ گاڑیوں کی فروخت کے لیے بنایا گیا ایک پلیٹ فارم ہے جس کے کام کرنے کا طریقہ بہت ہی سادہ سا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی گاڑی بیچنا چاہتا ہے تو وہ ان کی ہیلپ لائن پر کال یا پھر آن لائن فارم پُر کرکے گاڑی کے جائزے کا دن اور وقت طے کرسکتا ہے۔ پھر اسی دن گاڑی کا جائزہ لینے اور دستاویزات کی تصدیق کے لیے کار فرسٹ کا نمائندہ ان کے پاس پہنچ جائے گا۔

مجموعی خرید و فروخت کے عمل کا صرف نصف حصہ ایسے فروخت کنندہ افراد پر مشتمل ہے۔ خان بتاتے ہیں کہ، ہمارے خریداروں کا اہم حصہ کار ڈیلرز اور ایجنٹس پر مشتمل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ہمارا ان ایجنٹس اور ڈیلرز کے ساتھ کام کرنے کا گہرا تعلق قائم ہوچکا ہے۔‘

استعمال شدہ گاڑیوں کی مارکیٹ پر گہری نظر رکھنے والے خان کے مطابق گاڑیوں کی ڈیلرشپ میں پہلے درآمد شدہ گاڑیوں کا غلبہ ہوتا تھا لیکن اس وقت خریداری کے رویوں میں تبدیلی آچکی ہے۔ اس وقت مقامی سطح پر استعمال شدہ گاڑیوں کی طرف رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ درآمد شدہ گاڑیوں کی تعداد میں کمی تو ایک طرف، مقامی سطح پر اسمبل ہونے والی گاڑیوں پر ''پریمیم کے پیسے نہ ملنے‘ سے پیدا ہونے والے اثرات کے باعث زیادہ سے زیادہ ڈیلرز ہمارے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں''۔

کار فرسٹ اس وقت متعدد ٹریننگ پروگرام پر کام کر رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ڈیلرز کو اپنے ساتھ جوڑا جاسکے جو کمپنی کے ساتھ مل کر کام کریں اور ترقی حاصل کریں۔

ایسا لگتا ہے کہ کارفرسٹ نے دونوں دنیاؤں کے بہترین پہلوؤں سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔ خان بتاتے ہیں کہ ’ہماری او ایل ایکس کے ساتھ بھی شراکت داری قائم ہے جہاں ہمارے ذریعے سے او ایل ایکس نے ایک بڑی تعداد میں گاڑیاں بیچی ہیں۔‘

کارفرسٹ اس وقت استعمال شدہ گاڑیوں کی صنعت کا ایک بہت ہی چھوٹا سا حصہ ہے، لیکن یہ خود کو اس صنعت کا بڑا کھلاڑی بنانے کی راہ پر گامزن ہے۔ بدلتی ہوئی مارکیٹ میں ترقی کا نسخہ تلاش کرکے یہ کمپنی ایسے وقت میں وسعت پانے میں کامیاب ہو رہی ہے جب استعمال شدہ گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے اپنی دکانیں بند کر رہے ہیں۔

اس وقت کراچی میں اس کمپنی کے 16 مراکز قائم ہیں جن کی تعداد سال کے آخر تک 22 تک پہنچ جائے گی۔

خان کہتے ہیں کہ ’میں اس وقت مارکیٹ کو بحران سے زیادہ اصلاحی مرحلے سے گزرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ یہ ایک نارمل بات ہے اور صنعت کو ثابت قدم رہنا ہوگا، مجھے یقین ہے کہ یہ نیا رجحان صارف دوست ماحول کی راہ ہموار کرے گا‘۔


یہ مضمون 10 نومبر 2019ء کو ڈان اخبار کے ایؤس میگزین میں شائع ہوا۔

عامر شفاعت خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

میں نے کلٹس کو چھوڑ کر میرا گاڑی کیوں خریدی

ایک اور پاکستانی کمپنی 800 سی سی گاڑی متعارف کرانے کیلئے تیار

فروخت میں کمی کے باعث گاڑی بنانے والی کمپنیوں سے ہزاروں ملازم فارغ