’ہاں ہم ناکام ہیں‘
پاکستان کی معیشت ‘نقد معیشت’ کہلاتی ہے کیونکہ یہاں عوام کی اکثریت بینکوں میں رقوم رکھنے اور بینکوں کے ذریعے لین دین کرنے کے بجائے نقد لین دین کو ترجیح دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں زیرِ گردش کرنسی کی مالیت بہت زیادہ ہے۔
اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2019ء کے اختتام پر ملک میں زیرِ گردش کرنسی کی مالیت 5 ہزار 285 ارب روپے تھی۔ اس سال زیرِ گردش کرنسی میں 649 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ میں زیرِ گردش کرنسی کا حجم 381 ارب روپے مزید بڑھ گیا ہے۔
اس بڑی تعداد میں زیرِ گردش کرنسی کو برقرار رکھنے کے لیے اسٹیٹ بینک اور کمرشل بینکوں کو بہت زیادہ اخراجات کرنے کے علاوہ اچھا خاصا وقت بھی صَرف کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران اسٹیٹ بینک نے نئے کرنسی نوٹوں کی چھپائی پر 11 ارب روپے سے زائد خرچ کیے، جبکہ بینکوں کے سالانہ اخراجات میں کرنسی مینجمنٹ کا ایک بڑا خرچہ بھی شامل ہوتا ہے۔ نقد کیش کی مینجمنٹ کے لیے بینکوں نے 797 کیش پروسسنگ سینٹر قائم کیے ہوئے ہیں۔