لائف اسٹائل

'عہد وفا' میں دکھائی جانے والی تصویر کی دل چھو لینے والی داستان

8 ویں قسط میں ایک فوجی افسر ایک فریم شدہ تصویر دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ان کے والدین ہیں جن کا فوج سے تعلق نہیں تھا۔

آئی ایس پی آر کے تعاون سے ہم ٹی وی اور پی ٹی وی ہوم پر نشر ہونے والے ڈرامے 'عہد وفا' پاکستان بھر میں ناظرین کو پسند آیا ہے اور اب تک اس کی 8 اقساط نشر ہوچکی ہیں۔

اس ڈرامے کی کہانی 4 دوستوں کے گرد گھومتی ہے جو کالج میں تو اکٹھے تھے مگر پھر ایک واقعے کے بعد ان کی دوستی متاثر ہوتی ہے اور وہ الگ ہوجاتے ہیں۔

احد رضا میر کا کردار سعد اپنے والد بریگیڈئیر فراز کی طرح فوج میں چلا جاتا ہے جبکہ عثمان خالد بٹ کا کردار شاہ زین جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔

ڈرامے کی کہانی اور کردار بیان کرنے کی تو خاص ضرورت نہیں کیونکہ دیکھنے والے اس سے بخوبی واقف ہیں، اصل میں ہم 8 ویں قسط کے ایک سین کی بات کرنا چاہتے ہیں۔

اتوار 10 نومبر کو نشر ہونے والی اس قسط میں ایک سین میں دکھایا گیا ہے کہ ایک فوجی افسر واضح کرتے ہیں کہ پاک فوج میں اعزازی تلوار اور آگے بڑھنے کے مواقع صرف فوجیوں کے بچوں تک محدود نہیں۔

اس سین میں وہ اپنے والدین کی تصویر بھی دکھاتے ہیں جس میں بزرگ مرد اور خاتون بیٹھے ہوتے ہیں۔

ڈرامے میں دکھائی جانے والی تصویر میں موجوداس جوڑے کی اصل داستان بھی دلوں کو چھو لینے والی ہے۔

درحقیقت یہ ضلع چکوال کے قریبی قصبے ڈھڈیال سے تعلق رکھنے والے مظفر خان اور ان کی اہلیہ عائشہ تھے جن پر ایک فیچر بھی 2015 میں ڈان نیوز میں شائع ہوا تھا، جو آپ تصویر پر کلک کرکے پڑھ سکتے ہیں۔

مظفر خان چالیس کی دہائی میں برطانوی فوج کے آرڈنینس کور میں بطور اہلکار بھرتی ہوئے اور انہیں دیگر فوجیوں کے ہمراہ برما میں جاپانی فورسز سے لڑنے کے لیے بھیجا گیا۔

برما میں تعیناتی کے دوران وہ ایک برمی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوئے جس سے ان کی شادی ہوئی اور پھر وہ وطن واپس آئے۔

ان کی محبت کی کہانی اور وہ کس طرح اس قصبے میں پہنچے یہ سب چکوال کے ارگرد کے علاقوں میں کافی مقبول ہے جو 2015 میں مظفر کے رشتے داروں، دوستوں اور اس جوڑے نے خود بیان کی۔

مظفر خان کو اپنے علاقے میں چاچا کالو کے نام سے جانا جاتا تو ان کی 84 سالہ بیوی عائشہ بی بی کو ماشو کہا جاتا۔

چالیس کی دہائی کی یادیں وقت کے ساتھ ساتھ دھندلی پڑتی چلی گئی اور اس جوڑے کے لیے یہ حقیقت ہی باقی بچی کہ شادی کے بعد ان کی کوئی اولاد نہیں ہوئی جبکہ ماشو نے برما میں اپنا گھر بار شوہر کے ساتھ ہندوستان میں رہنے کے لیے قربان کردیا۔

ڈرامے میں جو تصویر دکھائی گئی تھی وہ یہ ہے — فوٹو بشکریہ دانیال شاہ

ماسی ماشو نے اس وقت بتایا تھا " جب ہم لوگ یہاں آئے تو میرے ملک میں جنگ جاری تھی"۔

چاچا کالو نے کہانی بیان کرتے ہوئے کہا " دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی برما میں لڑ رہے تھے اور مجھے وہاں ان سے مقابلے کے ایک مشن کے لیے بھیجا گیا"۔

ماشو کو یاد ہے کہ وہ وسطی برما کے ایک شہر میکیٹلا میں پلی بڑھی " میں ایک بدھ لڑکی تھی اور عبادت کے لیے اپنی ماں کے ہمراہ بدھ مندر جاتی رہتی تھی "۔

فوٹو بشکریہ دانیال شاہ

ماشو نے یہاں آنے کے بعد اسلام قبول کرلیا تھا اور انہیں تو اب اپنا وہ نام یاد بھی نہیں جو برما میں ستر سال پہلے ان کا تھا، عائشہ بی بی کا نام بھی مظفر سے شادی کے موقع پر رکھا گیا تھاجس کے بعد ارگرد کے بچوں نے انہیں ماں عاشو کہنا شروع کردیا جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ مختصر ہوکر ماشو کی شکل اختیار کرگیا۔

اپریل 2015 میں جب یہ مضمون شائع ہوا تھا تو اس کے بعد یہ خبر سامنے آئی تھی کہ چاچا کالو کا انتقال ہوگیا اور وہ ماشو کو اپنے رشتے داروں و پڑوسیوں کے ساتھ تنہا چھوڑ گئے۔

پاکستان کا وہ ریلوے اسٹیشن جو تاریخ کا حصہ بن گیا

پانچ روپے کے نوٹ پر موجود سرنگ کی تاریخ

آگ اور برف کا تہوار