نقطہ نظر

یہ اسنوکر کونسا کھیل ہے بھائی؟

’یار دیکھ، دوستی اپنی جگہ مگر کرکٹ کو بیچ میں مت لا۔ کرکٹ سے محبت نہیں عشق ہے۔ وہاں ٹیم ہارے یا جیتے ہم اس کے ساتھ ہیں۔‘

کل کا دن 2 حوالوں سے خوشی کا سبب بنا رہا۔ پہلی وجہ ہفتہ وار چھٹی اور دوسری وجہ اسنوکر کی ٹیبل سے آنے والی خوشی تھی۔

جب یہ خبر سنی تو اتفاق سے ہم کچھ دوست ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے۔

میں نے خبر سنتے ہی انہیں آگاہ کیا کہ یار یہ دیکھو کتنی زبردست خبر ملی ہے۔

وہ میری خوشی دیکھ کر خوش ہوئے اور انتہائی بے صبری سے پوچھنے لگے بتا بتا کیا خبر ہے؟

میں نے ان کو بتایا کہ پاکستان نے اسنوکر کی ٹیبل پر قبضہ کرتے ہوئے ورلڈ چیمپئن شپ اپنے نام کرلی۔

یہ خبر سنتے ہی وہ سب مجھے اتنی عجیب نظروں سے دیکھنے لگے جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ ’اب یہ بھی کوئی خبر ہے؟ اور ویسے یہ اسنوکر کونسا کھیل ہے بھائی‘۔

بات یہاں نہیں رکی، بلکہ وہ مجھ سے شکوہ کرنے لگے کہ میں اتنا خوش کیوں ہورہا ہوں؟

ایک دوست نے کہا کہ ’خوش تو آپ ایسے ہورہے ہیں جیسے اس جیت کی وجہ سے کوئی ذاتی فائدہ ہوا ہے‘۔

مجھے اس کا یہ رویہ بالکل اچھا نہیں لگا اور اسی کی بات اس کے منہ پر ماردی۔

میں نے کہا کہ اگر مجھے اس جیت کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہورہا تو پھر اس نے اس وقت کیوں پورے محلے میں اچھل کود مچایا ہوا تھا جب پاکستان نے چیمپئنز ٹرافی جیتی تھی؟

مجھے لگا کہ اس کے پاس اس بات کا جواب نہیں ہوگا، لیکن میں غلط نکلا۔

فوراً سے جواب آیا کہ یار دیکھ، دوستی اپنی جگہ، مگر کرکٹ کو بیچ میں مت لا۔ کرکٹ سے محبت نہیں عشق ہے۔ وہاں ٹیم ہارے یا جیتے ہم اس کے ساتھ ہیں، بھلا اس زبردست کھیل کا اسنوکر جیسے کھیل سے موازنہ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟

خیر، وہاں موجود دیگر دوستوں نے بات آگے پیچھے کردی اور ہم دیگر موضوعات میں مصروف ہوگئے۔

لیکن مجھے ہمارے اس رویے نے مستقل پریشان کیے رکھا ہے۔

مجھے اب ایسا لگتا ہے کہ ہمارا یہ رویہ محض کھیلوں کے ساتھ نہیں ہے، بلکہ عام زندگی میں بھی ہم میں سے اکثر لوگ یہی سب کرتے ہیں۔ کسی اور کا ذکر کیا کروں، میں خود اکثر یہ کرتا ہوں کہ جو لوگ مجھ سے بار بار رابطہ کرتے ہیں انہیں کم اہم جان کر ان لوگوں کے پیچھے بھاگتا رہتا ہوں جو مجھے نسبتاً کم اہمیت دیتے ہیں۔ اور شاید یہی سائیکل آگے بھی ایسے ہی چل رہی ہے۔ جیسے جس کو میں بہت زیادہ اہمیت دے رہا ہوں اور وہ مجھے کم سمجھ کر کسی اور کے پیچھے بھاگ رہا ہے، یہ عین ممکن ہے کہ آگے اس کے ساتھ بھی ویسا ہی ہورہا ہوگا۔

یہ مثال اس لیے دی کہ کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیل ہمیں مستقل نتائج دے رہے ہیں، مگر ہم ہیں کہ صرف کرکٹ کی دم پکڑ کر بیٹھیں ہیں، حالانکہ گزشتہ کچھ عرصے سے یہ کھیل ہمیں مسلسل ہر جگہ رسوا کرنے میں مصروف ہے۔

ایسا نہیں کہ کرکٹ مجھے پسند نہیں، یہ ناصرف مجھے پسند ہے، بلکہ جنون کی حد تک پسند ہے۔ شاید ہی کوئی میچ ایسا ہوتا ہو جو نہ دیکھ پاتا ہوں، لیکن ہمارا رویہ جو اب باقی کھیلوں کے ساتھ ہوچکا ہے، اسے دیکھ کر سنجیدگی سے محسوس ہورہا ہے کہ ہم ان کھیلوں کے ساتھ ہی زیادتی نہیں کررہے، بلکہ کھیلوں سے وابستہ افراد کی بھی دل آزاری کررہے ہیں، اور اگر ہمارا یہی رویہ جاری رہا تو وہ وقت دُور نہیں کہ یہاں کھیلوں کی سرگرمیاں مکمل طور پر معدوم ہوجائیں گی۔

یہ ساری بات کرنے کا ایک بڑا اور واضح مقصد ہے اور وہ یہ کہ وہ لمحہ تو سب کو ہی یاد ہوگا جب قومی ٹیم محض رن ریٹ کی بنیاد پر سیمی فائنل تک کوالیفائی نہیں کرسکی تھی اور پوری قوم نیم سوگ میں مبتلا تھی۔ لیکن یہ کسی کو یاد نہیں ہوگا کہ انہی دنوں قومی اسنوکر کھلاڑیوں نے دوحہ میں یکے بعد دیگرے 4 اسنوکر مقابلوں میں حصہ لے کر 16 تمغوں میں سے نصف درجن تمغے جیت کر پوری قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔

لیکن پھر ہوا کیا؟ اس بڑے اعزاز کے بعد جب یہ کھلاڑی واپس پاکستان آئے تو ایئرپورٹ پر ان کا استقبال کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ اور بالکل ایسا ہی استقبال آج محمد آصف کا ہوا جنہوں نے پاکستان کو اسنوکر میں ورلڈ چیمپئن بنایا۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ کارنامہ انہوں نے پہلی مرتبہ نہیں کیا بلکہ 2012ء میں بھی وہ یہ کام کرچکے ہیں۔ لیکن چونکہ اب یہ اسنوکر کا کھیل ہے، اس لیے کوئی حکومتی عہدیدار ان کو شاباشی دینے ایئرپورٹ تک نہیں آیا۔

چونکہ یہ اسنوکر کا کھیل ہے اس لیے کوئی حکومتی عہدیدار ان کو شاباشی دینے ایئرپورٹ نہیں آیا

ویسے یہ بھی ٹھیک ہے کہ جو ہوگیا اس کی بات کیا کریں کہ وہ تو ہم ٹھیک نہیں کرسکتے۔ لیکن جو ہونے والا ہے اس کو ٹھیک کرنا تو ہمارے ہاتھ میں ہے نا؟ لیکن کیا ہم ایسا کرنا چاہتے ہیں؟

چلیے بات کو آسان کرلیتے ہیں۔ اگلے سال اولمپکس کے مقابلے ہونے والے ہیں۔ اس حوالے سے ہماری کیا تیاری ہے ہم میں سے شاید ہی کسی کو کوئی خبر ہو۔ انعام بٹ، ایک واحد امیدوار ہے جو پاکستان کو ان عالمی مقابلوں میں کوئی اعزاز دلوا سکتا ہے، مگر صورتحال یہ ہے کہ حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے انعام بٹ رواں سال 2 اہم بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت نہیں کرسکے۔ یہ وہ مقابلے تھے جس میں ہر کیٹگری کے 6 کھلاڑیوں کو اولمپکس میں کوالیفائی کرنے کا پروانا ملنا تھا، مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ اگرچہ ان کے پاس ایک اور موقع تو موجود ہے، لیکن اگر ہم یونہی غلطیاں کرتے رہے تو یہ موقع بھی ہاتھ سے نکل جائے گا اور ہمیں خبر تک نہیں ہوگی۔

آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ میں اس پورے قصے میں قومی کھیل ہاکی کا ذکر کرنا بھول گیا۔ ابھی تک تو نہیں بھلا، لیکن ہاں میں اس کھیل کو بھول جانا چاہتا ہوں۔ یہ بھول جانا چاہتا ہوں کہ یہ ہمارا قومی کھیل ہے۔ یہ بھی بھول جانا چاہتا ہوں کہ کبھی اس کھیل میں ہم راج کیا کرتے ہیں۔ چاہتا ہوں کہ کاش اس کھیل سے ’قومی‘ کا لقب ہٹ جائے کہ شاید اس کھیل کی رونق بحال ہوجائے ۔

اور ویسے بھی اس کھیل کی اب کیا بات کریں کہ جس قومی کھیل کی نمائندگی کرنے والی ٹیم کو ورلڈ کپ سے کچھ دن پہلے تک یہ معلوم نہ ہو کہ وہ فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے میگا ایونٹ میں حصہ لے سکے گی یا نہیں۔

چھوڑیے یار، مجھ سے مزید بات نہیں ہوگی۔

بس اس پوری کہانی کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ضروری ہرگز نہیں کہ ہمیں ہر کھیل پسند ہو۔ ممکن ہے کہ مجھے کرکٹ پسند ہو تو آپ کو ہاکی۔ ہمیں ایک دوسرے کی پسند کا احترام کرنا چاہیے، میں تو صرف اتنا چاہتا ہوں کہ اگر کسی کھیل میں ہمارے قومی ہیرو کوئی اعزاز حاصل کریں تو ہمیں ان کی ہمت افزائی کرنی چاہیے۔ ہمیں کچھ ایسا کرنا چاہیے جس سے ان کو یہ احساس ہو کہ انہوں نے واقعی کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ ہم کم از کم یہ تو کر ہی سکتے ہیں نا؟

فہیم پٹیل

فہیم پٹیل سینئر صحافی ہیں، آپ کا ای میل ایڈریس fahimpatel00@gmail.com ہے۔

آپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: patelfahim@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔