بابری مسجد کیس کے فیصلے سے ہمیں نئی شروعات کا موقع ملا ہے، نریندر مودی
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا بابری مسجد کیس پر سنائے گئے فیصلے سے سب مطمئن ہیں اور فیصلہ متفقہ طور پر آیا ہے۔
بھارتی اخبار 'دی ہندو' کی رپورٹ کے مطابق نریندر مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'آج سپریم کورٹ نے ایسے معاملے پر فیصلہ سنایا جس کی دہائیوں پرانی تاریخ تھی'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'پورا ملک چاہتا تھا کہ مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو اور ایسا ہی ہوا، تاہم یہ معاملہ اب اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور آج یہ بھی ثابت ہوگیا کہ یہ بھرپور صلاحیت کا حامل اور مضبوط ملک ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: مسلمانوں کو خیرات میں زمین دینے کی ضرورت نہیں، اسد الدین اویسی
نریندر مودی نے دعویٰ کیا کہ 'جس طرح سے ہر طبقے کے لوگوں نے اس فیصلے کو کھلے دل سے قبول کیا ہے، اس سے اتحاد کا مظاہرہ ہوتا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'سپریم کورٹ نے انتہائی تحمل سے سب کی بات سنی اور سب کو مطمئن کرنے کے لیے متفقہ طور پر فیصلہ سنایا ہے اور اس کے لیے ججز، عدلیہ اور عدالتی نظام کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ '9 نومبر ہی کو برلن کی دیوار گری تھی اور 2 حریف نظریات آپس میں ملے تھے اور آج ہی کرتار پور صاحب راہداری کا افتتاح بھی ہوا'۔
بھارتی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 'سپریم کورٹ نے ہمیں یہ بھی پیغام دیا ہے کہ مشکل ترین امور کا حل آئین اور قانون کے اندر موجود ہے، بھلے اس کے لیے وقت درکار ہو'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'فیصلے سے ہمیں ایک نئی شروعات کا موقع ملا ہے، اس تنازع سے کئی نسلیں متاثر ہوئی ہیں تاہم ہمیں اس کو حل کرکے نئے بھارت کا آغاز کرنا چاہیے'۔
بابری مسجد کیس
واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے 1992 میں شہید کی گئی تاریخی بابری مسجد کیس کا آج (9 نومبر کو) فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی متنازع زمین پر رام مندر تعمیر کرنے اور مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کے لیے متبادل کے طور پر علیحدہ اراضی فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد کی تعمیر، شہادت اور عدالتی فیصلے تک کیا کچھ ہوا
چیف جسٹس بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ ’ایودھیا میں متنازع زمین پر مندر قائم کیا جائے گا جبکہ مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے نمایاں مقام پر 5 ایکڑ زمین فراہم کی جائے‘۔
یاد رہے کہ 6 دسمبر 1992 میں مشتعل ہندو گروہ نے ایودھیا کی بابری مسجد کو شہید کردیا تھا جس کے بعد بدترین فسادات نے جنم لیا اور 2 ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، ان فسادات کو تقسیم ہند کے بعد ہونے والے سب سے بڑے فسادت کہا گیا تھا۔
جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا اس کے بعد سے اس مقام کا کنٹرول وفاقی حکومت اور بعدازاں سپریم کورٹ نے سنبھال لیا تھا۔
بھارت کی ماتحت عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ 2.77 ایکڑ کی متنازع اراضی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تقسیم ہو گی۔
ایودھیا کے اس مقام پر کیا تعمیر ہونا چاہیے، اس حوالے مسلمان اور ہندو دونوں قوموں کے افراد نے 2010 میں بھارتی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ اپنی اپنی درخواستیں سپریم کورٹ میں جمع کروا رکھی تھیں جس نے اس معاملے پر 8 مارچ کو ثالثی کمیشن تشکیل دیا تھا۔
اس تنازع کے باعث بھارت کی مسلمان اقلیت اور ہندو اکثریت کے مابین کشیدگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا تھا۔