انہوں نے اپنے پیغام میں کہاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ خطے کی خوشحالی اور آنے والی نسلوں کاروشن مستقبل امن میں مضمرہے۔عمران خان نے کہاکہ بابا گرونانک دیوجی کے 550ویں جنم دن کے موقع پر سکھ برادری کے لیے راہداری کے افتتاح کی اہمیت مسلمان اپنے مذہبی مقامات کے تقدس کے حوالے سے بخوبی سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ کرتارپور راہداری کا افتتاح اس حقیقت کا عکاس ہے کہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے لیے ہمارے دل ہمیشہ کھلے ہیں جس کا حکم ہمارے مذہب نے دیا اور جس کا تصور بابائے قوم نے پیش کیا تھا۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ آج ہم محض سرحدہی نہیں بلکہ سکھ برادری کے لیے اپنے دلوں کو بھی کھول رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ حکومت پاکستان کے اس شاندارجذبہ خیرسگالی سے باباگرونانک دیوجی اور سکھ برادری کے مذہبی جذبات کے لیے اس کے احترام کی عکاسی ہوتی ہے۔
عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ بین المذاہب ہم آہنگی اورپُرامن بقائے باہمی سے برصغیر کے لوگوں کے وسیع تر مفادات کے لیے کام کرنے کاموقع فراہم ہوگا۔
حساس مسئلے کو خوشی کے دن شامل نہیں کرنا چاہیے تھا، وزیر خارجہ
دریں اثنا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کرتار پور راہداری کے افتتاح سے قبل ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج ایک تاریخی دن ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنا کیا ہوا وعدہ نبھادیا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں سکھوں کے چہروں پر جو رونق اور خوشی کی لہر ہے وہ قابل دید ہے، یاتری بہت ذوق و شوق سے یہاں آرہے ہیں اور یہ ایک بین الاقوامی ایونٹ بن چکا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ کرتار پور راہداری کو عالمی شہرت حاصل ہوچکی ہے اس اثنا میں مجھے تعجب ہوتا ہے کہ کیا بابری مسجد کا فیصلہ آج ہی آنا تھا؟ کیا یہ ایک دو روز انتظار نہیں ہوسکتا تھا۔
مزید پڑھیں: پاکستان، بھارت کے درمیان کرتارپور راہداری فعال کرنے کے معاہدے پر دستخط
شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ خوشی کے موقع پر بھارت کی جانب سے اتنی بے حسی کا مظاہرہ کیا گیا، جس کا مجھے بے حد افسوس ہے، بھارت کو اس خوشی میں شامل ہونا چاہیے تھا، یہ ایک حساس مسئلہ ہے اور حساس مسئلے کو خوشی کے دن شامل نہیں کرنا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں سنگاپور میں تھا جہاں کرتارپور راہداری کے حوالے سے ایک خصوصی تصویری نمائش کا اہتمام کیا گیا، اس نمائش میں پاکستان کے اندر سکھ دھرم کے جتنے اہم گوردوارے ہیں ان کی تصاویر شامل کی گئی تھیں۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ مجھے اس تصویری نمائش کے افتتاح کا کہا گیا اور جب میں افتتاح کے لیے پہنچا تو سکھ برادری کے بہت سے لوگوں سے میری ملاقات ہوئی، ان لوگوں کے اندر خوشی کے جو جذبات تھے وہ بیان سے باہر تھے وہ پاکستان کے بے انتہا شکرگزار تھے۔
کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد
گزشتہ برس 28 نومبر کو وزیراعظم عمران خان نے صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال کے علاقے کرتارپور میں قائم گوردوارہ دربار صاحب کو بھارت کے شہر گورداس پور میں قائم ڈیرہ بابا نانک سے منسلک کرنے والی راہداری کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔
کرتارپور راہداری کی بروقت تکمیل کے لیے پاکستان نے دن رات کام کیا اور 20 اکتوبر کو اعلان کیا گیا کہ وزیراعظم عمران خان 9 نومبر کو راہداری کا افتتاح کریں گے۔
بعدازاں رواں برس 24 اکتوبر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان کرتارپور راہداری کا منصوبہ فعال کرنے سے متعلق معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔
18 نکات پر مشتمل معاہدے کے تحت 5 ہزار سکھ یاتری، انفرادی یا گروپ کی شکل میں یاتری پیدل یا سواری کے ذریعے صبح سے شام تک سال بھر ناروال میں کرتارپور آسکیں گے، حکومت پاکستان یاتریوں کی سہولت کے لیے شناختی کارڈ جاری کرے گی اور ہر یاتری سے 20 ڈالر سروس فیس وصول کی جائے گی۔
بعدازاں یکم نومبر کو وزیراعظم عمران خان نے کرتارپور آنے والے یاتریوں کے لیے پاسپورٹ اور 10 روز قبل اندراج کرانے کی شرائط ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ بابا گرونانک کے 550ویں سالگرہ کے موقع پر حکومت پاکستان نے سکھ یاتریوں کو خصوصی مراعات دیتے ہوئے ایک سال کے لیے پاسپورٹ کی شرط ختم کرنے اور زائرین کی فہرست 10 روز قبل فراہم کرنے کی شرط ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ 20 ڈالر کی سروس فیس میں 9 تا 12 نومبر تک کے لیے استثنیٰ بھی دیا گیا ہے۔
تاہم بھارت نے سکھ یاتریوں کے جذبات کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے اعلان کردہ مراعات کو مسترد کر دیا تھا۔
کرتار پور اتنا اہم کیوں ہے؟
کرتار پور پاکستانی پنجاب کے ضلع نارووال میں شکر گڑھ کے علاقے میں دریائے راوی کے مغربی جانب واقع ہے، جہاں سکھوں کے پہلے گرونانک دیو جی نے اپنی زندگی کے 18 برس گزارے تھے۔
کرتارپور میں واقع دربار صاحب گوردوارہ کا بھارتی سرحد سے فاصلہ تین سے چار کلومیٹر کا ہی ہے۔
سکھ زائرین بھارت سے دوربین کے ذریعے ڈیرہ بابانک کی زیارت کرتے ہیں بابا گرونانک کے جنم دن کے موقع پر ہزاروں سکھ زائرین ہر سال بھارت سے پاکستان آتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کرتارپور راہداری پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تکنیکی سطح کے مذاکرات
پاکستان میں واقع سکھوں کے دیگر مقدس مقامات ڈیرہ صاحب لاہور، پنجہ صاحب حسن ابدال اور جنم استھان ننکانہ صاحب کے برعکس کرتار پور ڈیرہ بابا نانک سرحد کے قریب ایک گاؤں میں ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان کرتارپور سرحد کھولنے کا معاملہ 1988 میں طے پاگیا تھا لیکن بعد ازاں دونوں ممالک کے کشیدہ حالات کے باعث اس حوالے سے پیش رفت نہ ہوسکی۔
سرحد بند ہونے کی وجہ سے ہر سال بابا گرونانک کے جنم دن کے موقع پر سکھ بھارتی سرحد کے قریب عبادت کرتے ہیں اور بہت سے زائرین دوربین کے ذریعے گوردوارے کی زیارت بھی کرتے ہیں۔