دنیا

بابری مسجد کی زمین پر رام مندر تعمیر کیا جائے گا، بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ

بابری مسجد خالی زمین پر نہیں بنائی گئی تھی، مسلمانوں کو مسجد کیلئے 5 ایکڑ متبادل زمین فراہم کی جائے، عدالت عظمیٰ

بھارتی سپریم کورٹ نے 1992 میں شہید کی گئی تاریخی بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی متنازع زمین پر رام مندر تعمیر کرنے اور مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کے لیے متبادل کے طور پر علیحدہ اراضی فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ ’ایودھیا میں متنازع زمین پر مندر قائم کیا جائے گا جبکہ مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے نمایاں مقام پر 5 ایکڑ زمین فراہم کی جائے‘۔

ایک ہزار 45 صفحات پر مشتمل مذکورہ فیصلہ بھارتی چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سنایا جس میں ایک مسلمان جج عبدالنذیر بھی شامل تھے۔

فیصلے میں بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ایودھیا میں بابری مسجد کی متنازع زمین کے مالک رام جنم بھومی نیاس ہیں، ساتھ ہی یہ حکم دیا کہ مندر کی تعمیر کے لیے 3 ماہ میں ٹرسٹ تشکیل دی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد تنازع حل نہ ہونے پر بھارت میں خانہ جنگی کا خطرہ، ثالث کی تنبیہ

فیصلے کے ابتدائی حصے میں عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد کے مقام پر نرموہی اکھاڑے اور شیعہ وقف بورڈ کا دعویٰ مسترد کردیا۔

ثابت نہیں ہوا کہ مندر گرا کر بابری مسجد بنائی گئی تھی، عدالت

اہم ترین اور 27 سال سے جای کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ آثارِ قدیمہ کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی کہ بابری مسجد کے نیچے بھی تعمیرات موجود تھیں جو اسلام سے تعلق نہیں رکھتی تھیں۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اس بات کے اطمینان بخش شواہد موجود ہیں کہ بابری مسجد کسی خالی زمین پر تعمیر نہیں کی گئی تھی۔

سپریم کورٹ کے مطابق آرکیالوجیکل سروے انڈیا (اے ایس آئی) نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ متنازع زمین پر 12 ویں صدی عیسوی میں مندر تھا اور نہ ہی خاص طور پر یہ بتایا کہ بابری مسجد کے نیچے پائی جانے والی تعمیرات مندر کی تھیں۔

چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے کہا کہ اے ایس آئی رپورٹ میں اس انتہائی اہم بات کا جواب نہیں دیا گیا کہ بابری مسجد کسی مندر کو گرا کر تعمیر کی گئی۔

مزید یہ کہ اس بات کا بھی کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں کہ 12 ویں صدی عیسویں سے 16ویں صدی عیسوی (جب بابری مسجد بنائی گئی) کے دوران کسی قسم کی تعمیرات موجود تھیں۔

بھارتی سپریم کورٹ نے کہا کہ مسلمانوں نے مذکورہ مسجد کو لاوارث نہیں چھوڑا تھا، صرف وہاں نماز نہیں پڑھی جاتی تھی جس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے مسجد کی ملکیت چھوڑ دی تھی۔

مزید پڑھیں: بابری مسجد کے انہدام کی بیسویں برسی

سماعت کے دوران بھارتی چیف جسٹس نے کہا کہ مسلمان مسجد کے اندرونی مقام پر عبادت کرتے تھے جبکہ ہندو مسجد کے باہر کے مقام پر اپنی عبادت کرتے تھے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہندوؤں کی جانب سے یہ دعویٰ کہ دیوتا رام کا جنم بابری مسجد کے مقام پر ہوا تھا غیر متنازع ہے جبکہ مذکورہ زمین کی تقسیم قانونی بنیادوں پر ہونی چاہیے۔

فیصلے کا خیر مقدم

ادھر بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے بابری مسجد کی متنازع جگہ رام مندر کی تعمیر کے لیے ہندوؤں کو فراہم کیے جانے کے فیصلے پر بھارت کی حکومتی شخصیات، سیاستدانوں نے خیر مقدم کیا۔

سماعت کے بعد ہندو تنظیموں کے کارکنان خوشی مناتے ہوئے سڑکوں پر آگئے اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔

دوسری جانب بھارتی ویب سائٹ کے مطابق مقدمے کے مدعی اقبال انصاری نے بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول کرتے ہوئے اطمینان کا اظہار کیا۔

سیکیورٹی سخت

دوسری جانب بابری مسجد فیصلے کے حوالے سے پورے بھارت میں سیکیورٹی کے انتظامات سخت کردیے گئے تاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچا جاسکے۔

علاوہ ازیں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں خصوصی طور پر سیکیورٹی میں اضافہ کیا گیا جبکہ حساس مقامات اور علاقوں پر پولیس کے گشت کو بھی بڑھا دیا گیا۔

بھارت کے معاشی حب ممبئی میں 5 ہزار کیمروں کے ذریعے صورتحال کی سختی سے نگرانی کی گئی جبکہ امن و عامہ کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے 40 ہزار سے زائد اہلکار تعینات کیے گئے۔

سڑکوں پر سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ اور حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانے کے لیے اضافی انتظامات کیے گئے۔

ایودھیا میں ہائی الرٹ

سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں ایودھیا سمیت پورے اترپردیش کو سیکیورٹی کے حصار میں قید کردیا گیا ہے جس کے تحت تمام دھرماشالے بند کردیے گئے جبکہ غیر مقامی افراد کو شہر سے نکلنے کا حکم دیا گیا۔

علاوہ ازیں کسی بھی ممنوعہ اجتماع سے بچنے کے لیے جموں و کشمیر، اتر پردیش اور گووا میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی جبکہ متعدد ریاستوں میں تمام تر تعلیمی ادارے بند ہیں۔

دوسری جانب فیصلے کے پیشِ نظر علی گڑھ میں رات کو ہی موبائل فون سروس معطل کردی گئی تھی جبکہ حکام کا کہنا تھا کہ ایودھیا میں بھی انٹرنیٹ سروس معطل کی جاسکتی ہے۔

بابری مسجد کیس پس منظر

یاد رہے کہ 6 دسمبر 1992 میں مشتعل ہندو گروہ نے ایودھیا کی بابری مسجد کو شہید کردیا تھا جس کے بعد بدترین فسادات نے جنم لیا اور 2 ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، ان فسادات کو تقسیم ہند کے بعد ہونے والے سب سے بڑے فسادت کہا گیا تھا۔

جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا اس کے بعد سے اس مقام کا کنٹرول وفاقی حکومت اور بعدازاں سپریم کورٹ نے سنبھال لیا تھا۔

بھارت کی ماتحت عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ 2.77 ایکڑ کی متنازع اراضی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تقسیم ہو گی۔

یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کیلئے انتہا پسند ہندوؤں کو جمع ہونے کی کال

ایودھیا کے اس مقام پر کیا تعمیر ہونا چاہیے، اس حوالے مسلمان اور ہندو دونوں قوموں کے افراد نے 2010 میں بھارتی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ اپنی اپنی درخواستیں سپریم کورٹ میں جمع کروا رکھی تھیں جس نے اس معاملے پر اُسی سال 8 مارچ کو ثالثی کمیشن تشکیل دیا تھا۔

اس تنازع کے باعث بھارت کی مسلمان اقلیت اور ہندو اکثریت کے مابین کشیدگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا تھا۔

مسلمان فریقین کا مؤقف

بابری مسجد کے حوالے سے مسلمانوں کا مؤقف ہے کہ یہ سال 1528 سے موجود مذکوہ مقام پر قائم ہے، مسجد کی موجودگی کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے خلاف 1855، 1934 اور 1949 میں کیس کیے گئے تھے۔

برطانوی راج نے بابر کی جانب سے دی گئی امداد کو منظور کر لیا تھا جس کے بعد اس امداد کا سلسلہ نوابوں کی جانب سے جاری رہا۔

1885 کے مقدمے کی دستاویزات سے مسجد کی موجودگی کا ثبوت ملتا ہے، مسلمانوں کے پاس اس جگہ کی ملکیت تھی اور وہ 22، 23 دسمبر 1949 تک یہاں عید کی نماز پڑھتے رہے۔

مزید پڑھیں: بابری مسجد تنازع کے حل کیلئے ثالثی پینل کی مدت میں 3 ماہ کی توسیع

مسلمانوں کا اصرار ہے کہ مسجد کی موجودگی کے حوالے سے تاریخ دانوں کے متنازع دلائل انتہائی کمزور ہیں اور ان کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔

ان کے دلائل کے مطابق بھارتی محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) کی رپورٹ میں مسجد کے نیچے مندر کی بات 'محض ایک دعویٰ' ہے جس کے سائنسی حقائق موجود نہیں۔

ہندو فریقین کا مؤقف

ہندوؤں کا مؤقف ہے کہ یہ مندر صدیوں پہلے بنایا گیا جسے ممکنہ طور پر راجا وکراما دتیا نے بنایا ہوگا اور پھر 11ویں صدی میں اسے دوبارہ بنایا گیا، اس مندر کو 1526 میں بابر نے یا پھر 17ویں صدی میں ممکنہ طور پر اورنگزیب نے گرا دیا تھا۔

تاریخی دستاویزات جیسے سکاندو پرانا یا اس کے بعد میں آنے والے ایڈیشنز، سفرناموں اور دیگر کہانیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایودھیا میں بھگوان رام کا جنم ہوا تھا۔

عینی شاہدین کے ثبوتوں کے مطابق لوگوں کا صدیوں سے ماننا ہے کہ ایودھیا میں بھگوان رام کا جنم ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد: بھارتی سپریم کورٹ نے تنازع کے حل کیلئے ثالثی ٹیم بنادی

اے ایس آئی کی رپورٹ سے مندر کی موجودگی اور اسے ڈھائے جانے کا ثبوت ملتا ہے۔

رواں برس بھارت کی سپریم کورٹ نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان بابری مسجد اور رام مندر کی زمین کا تنازع حل کرنے کے لیے ثالثی ٹیم تشکیل دی تھی۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ 2010 میں بھارتی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

بھارت کی ماتحت عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ 2.77 ایکڑ کی متنازع اراضی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تقسیم ہو گی۔

دسمبر 1992 میں ایودھیا - بابری مسجد کا تنازع اس وقت پرتشدد صورت اختیار کرگیا تھا جب راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)، وشوا ہندو پریشد اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے حمایت یافتہ مشتعل ہجوم نے بابری مسجد کو شہید کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا

گزشتہ 3 دہائیوں میں کشمیر میں بھارت کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے ہزاروں کشمیری جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ ایودھیا میں 500 سال قدیم مسجد کو شہید کرنے کی وجہ سے ہونے والے فسادات میں 2 ہزار افراد قتل کردیے گئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

انتہا پسند ہندوؤں کے مطابق وہ اس مقام پر ہندو دیوتا 'رام' کا نیا مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں، جو ان کی جائے پیدائش ہے۔

ان کا مؤقف ہے کہ 16ویں صدی کی بابری مسجد، مسلم بادشاہوں نے ہندو دیوتا کا مندر گرانے کے بعد قائم کی تھی۔

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014 اور 2019 میں انتخابات سے قبل اس مقام پر مندر تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس کی وجہ سے وہ انتہا پسند ہندوؤں کے بڑے پیمانے پر ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔

بابری مسجد فیصلہ: ’نہرو، گاندھی کا سیکولر ہندوستان، انتہاپسندی میں دب گیا‘

وزیراعظم عمران خان نے کرتارپور راہداری کا افتتاح کردیا

‘بیرون ملک جیلوں میں موجود پاکستانی وطن واپسی کیلئے آمادہ نہیں‘