پاکستان

کرتارپور راہداری سنگ بنیاد سے تکمیل تک

سکھ یاتریوں کی گوردوارہ ڈیرہ صاحب تک باآسانی رسائی کے لیے قائم کی گئی کرتارپور راہدرای کا باقاعدہ افتتاح آج ہوگا۔

سکھوں کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل مقام گوردوارہ ڈیرہ صاحب تک سکھ یاتریوں کی باآسانی رسائی کے لیے قائم کی گئی کرتارپور راہدرای کو باقاعدہ طور پر آج کھول دیا جائے گا۔

تقریباً ایک سال کے قلیل عرصے میں تعمیر ہونے والی اس راہداری کا مقصد بھارت سے پاکستان کے ضلع نارووال میں کرتارپور کے مقام پر گوردوارہ ڈیرہ صاحب آنے والے سکھ یاتریوں کو سہولت فراہم کرنا ہے۔

باباگرونانک کے 550ویں جنم دن کی تقریبات کے آغاز پر کرتارپور راہداری کھولی جارہی ہے—فوٹو: اے ایف پی

یہ کرتارپور راہداری بابا گرونانک کے 550 ویں جنم دن کی تقریبات کے موقع پر کھولی جارہی ہے اور ان تقریبات کا باقاعدہ آغاز منگل سے ہورہا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر یہ منصوبہ خطے میں قیام امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے شروع کیا گیا تھا اور اس کی تعمیر کے لیے فنڈز پاکستان نے خود فراہم کیے تھے۔

پاکستان کی جانب سے قیام امن و ہم آہنگی کے جذبے کے پیش نظر بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں کے لیے خصوصی مراعات کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے یکم نومبر کو کرتارپور زیارت کے لیے آنے والوں کے لیے پاکستان آنے کے لیے 10 روز قبل اندراج کرانے اور پاسپورٹ کی شرائط ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

بعد ازاں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ بابا گرونانک کے 550ویں سالگرہ کے موقع پر حکومت پاکستان نے کرتار پور آنے والے سکھ یاتریوں کو خصوصی مراعات دیتے ہوئے ایک سال کے لیے پاسپورٹ کی شرط ختم کرنے اور زائرین کی فہرست 10 روز قبل فراہم کرنے کی شرط ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ سکھ یاتری 20 امریکی ڈالر کی سروس فیس ادا کرکے گوردوارے آسکیں گے تاہم 9 تا 12 نومبر تک کے لیے یاتریوں کو فیس سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔

تاہم بھارت نے سکھ یاتریوں کے جذبات کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے اعلان کردہ مراعات کو مسترد کر دیا تھا جس پر پاکستان کی جانب سے مایوسی کا اظہار کیا گیا۔

کرتارپور کہاں ہے اور سکھوں کے لیے اتنا اہم کیوں؟

کرتارپور پاکستانی پنجاب کے ضلع نارووال میں شکر گڑھ کے علاقے میں دریائے راوی کے مغربی جانب واقع ہے۔ جہاں سکھوں کے پہلے گرونانک دیو جی نے اپنی زندگی کے 18 برس گزارے تھے۔

کرتارپور میں واقع دربار صاحب گوردوارہ کا بھارتی سرحد سے فاصلہ 3 سے 4 کلومیٹر کا ہی ہے۔

گوردوارہ میں روزانہ 5 ہزار سکھ یاتری آسکیں گے—فوٹو: اے ایف پی

سکھ زائرین بھارت سے دوربین کے ذریعے ڈیرہ بابانک کی زیارت کرتے ہیں بابا گرونانک کی سالگرہ منانے کے لیے ہزاروں سکھ زائرین ہر سال بھارت سے پاکستان آتے ہیں۔

پاکستان میں واقع سکھوں کے دیگر مقدس مقامات ڈیرہ صاحب لاہور، پنجہ صاحب حسن ابدال اور جنم استھان ننکانہ صاحب کے برعکس کرتار پور ڈیرہ بابا نانک سرحد کے قریب ایک گاؤں میں ہے۔

بھارت کے یاتریوں کے لیے کرتا پور راہداری آمد ویزا فری ہے، راہداری کے راستے یومیہ 5 ہزار یاتری پاکسان آسکیں گے جو صبح پہنچ کر شام کو واپس چلے جایا کریں گے، سکھ یاتریوں کی سیکیورٹی کےلیے 2سو سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیےگئے ہیں۔

کرتارپور راہداری کی تعمیر کے بعد اس گوردوارے کے کمپلیکس کا رقبہ تقریباً 2500 ایکڑ پر پھیل گیا ہے، جس میں بس ٹرمینلز، ہوٹلز کے لیے مخصوص جگہیں، تالاب، عارضی رہائش گاہیں، لنگر ہال، پارکنگ ایریا، سڑکیں اور دیگر سہولیات کے لیے تعمیرات شامل ہیں جس کے بعد یہ دنیا کا سب سے بڑا گوردوارہ بن گیا ہے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان کرتارپور سرحد کھولنے کا معاملہ 1988 میں طے پاگیا تھا لیکن بعد ازاں دونوں ممالک کے کشیدہ حالات کے باعث اس حوالے سے پیش رفت نہ ہوسکی۔

سرحد بند ہونے کی وجہ سے ہر سال بابا گرونانک کے جنم دن کے موقع پر سکھ بھارتی سرحد کے قریب عبادت کرتے ہیں اور بہت سے زائرین دوربین کے ذریعے گوردوارے کی زیارت بھی کرتے تھے۔

کرتارپور راہداری کا منصوبہ کیسے شروع ہوا

گزشتہ برس اگست میں سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی دعوت پر وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے پاکستان آئے تھے۔

انہوں نے اس تقریب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے گلے ملے اور ان سے غیر رسمی گفتگو کی تھی۔

اس حوالے سے سدھو نے بتایا تھا کہ جب ان کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ پاکستان گرو نانک صاحب کے 550ویں جنم دن پر کرتارپور راہداری کھولنے سے متعلق سوچ رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ پاکستان آرمی کے سربراہ اس ایک جملے میں انہیں وہ سب کچھ دے گئے جیسا کہ انہیں کائنات میں سب کچھ مل گیا ہو۔

کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد

بعد ازاں 28 نومبر 2018 کو وزیراعظم عمران خان نے ضلع نارووال کے علاقے کرتارپور میں قائم گوردوارہ دربار صاحب کو بھارت کے شہر گورداس پور میں قائم ڈیرہ بابا نانک سے منسلک کرنے والی راہداری کا سنگِ بنیاد رکھ دیا تھا۔

اس سنگ بنیاد کی تقریب میں سابق بھارتی کرکٹر اور سیاست دان نوجوت سنگھ سدھو خصوصی طور پر پاکستان آئے تھے۔

کرتارپور راہداری کے سنگ بنیاد کے موقع پر نووجوت سنگھ سدھو بھی پاکستان آئے تھے—فائل فوٹو: اے پی پی

پاکستان نے اس وقت کی بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج کو تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی تاہم انہوں نے شرکت سے معذرت کرلی تھی۔

کرتارپور کی تکمیل

پاکستان کی جانب سے کرتارپور راہداری کی بروقت تکمیل کے لیے دن رات کام کیا گیا اور 20 اکتوبر کو یہ اعلان کیا گیا کہ وزیراعظم عمران خان 9 نومبر کو اس کا افتتاح کریں گے۔

جس کے بعد 24 اکتوبر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان کرتارپور راہداری کا منصوبہ فعال کرنے سے متعلق معاہدے پر دستخط ہوئے اور 18 نکات پر مشتمل معاہدے کے تحت 5 ہزار سکھ یاتری، انفرادی یا گروپ کی شکل میں یاتری پیدل یا سواری کے ذریعے صبح سے شام تک سال بھر ناروال میں کرتارپور آسکیں گے، حکومت پاکستان یاتریوں کی سہولت کے لیے شناختی کارڈ جاری کرے گی اور ہر یاتری سے 20 ڈالر سروس فیس وصول کی جائے گی، تاہم سرکاری تعطیلات اور کسی ہنگامی صورتحال میں یہ سہولت میسر نہیں ہوگی۔

کرتارپور راہداری کو برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا—فائل فوٹو: ٹوئٹر

اس معاہدے کے بعد 3 نومبر کو وزیراعظم عمران خان نے خود کرتارپور راہداری کی تصاویر شیئر کی تھیں اور کہا تھا کہ کرتارپور سکھ یاتریوں کے خیر مقدم کیلئے کرتار پور پوری طرح تیار ہے۔

سکھ یاتری پاکستان میں کیسے داخل ہوں گے؟

تاہم پاکستان نے اس منصوبے پر کام جاری رکھا اور کرتارپور راہداری تقریباً ایک سال کے قلیل عرصے میں تعمیر کی گئی ہے۔

یہ ایک ویزا فری کوریڈور ہے اور جس کے ذریعے بھارت سے آنے والے سکھ یاتری صبح گوردوارہ دربار صاحب آکر اسی شام کو واپس چلے جایا کریں گے۔

کرتارپور راہداری کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق اس راستے سے روزانہ بھارت سے 5 ہزار سکھ یاتریوں کو آنے کی اجازت ہوگی۔

سکھ یاتریوں کی آمد کے موقع پر بائیو میٹرک کی جارہی ہے—فوٹو: اے ایف پی

بارڈر ٹرمینل میں سکھ یاتریوں کی سہولت کے لیے تقریباً 130 کاؤنٹر بنائے گئے ہیں، جہاں ان کے پاسپورٹ شناخت یا پرمٹ کی اسکینگ اور بائیو میٹرک تصدیق کی جائے گی جبکہ سکھ یاتریوں سے بابا گرونانک کے 55ویں جنم دن کی تقریبات کے بعد سے 20 ڈالر فی کس سروس چارجز وصول کیے جائیں گے۔

امیگریشن کے بعد یاتری شٹل بسوں میں تقریباً ساڑھے 4 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے گوردوارہ دربار صاحب پہنچیں گے جبکہ کرتارپور راہداری سے آنے والے یاتری ایک مخصوص دروازے سے گوردوارہ دربار صاحب میں داخل ہوں گے۔

یاتریوں کو گوردوارہ دربار صاحب کےعلاوہ پاکستانی حدود میں کہیں بھی داخلے کی اجازت نہیں ہوگی، اس مقصد کے لیے کرتارپور راہداری اور گوردوارہ دربار صاحب تک سڑک کی دونوں جانب اونچے جنگلے اور خاردار تاریں لگادی گئی ہیں۔