اس خطے میں اوریگن اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ولیم ریپل نے لکھا کہ 40 برسوں سے عالمی سطح پر مذاکرات کے باوجود حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور ہم اس بحران پر قابو پانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
بائیو سائنس میں شائع خط میں مزید لکھا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی رفتار بیشتر سائنسدانوں کے خیالات سے زیادہ تیز ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ ان کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ انسانیت کو ہر طرح کے تباہ کن خطرے سے آگاہ کریں اور اس وقت سیارہ زمین کو موسمیاتی ایمرجنسی کا سامنا ہے۔
خط میں بتایا گیا کہ کچھ مثبت اعشاریے بھی سامنے آئے ہیں جیسے شرح پیدائش میں کمی اور متبادل توانائی کے استعمال میں اضافہ، مگر زیادہ تر اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان بہت تیزی سے غلط سمت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
اس کے مقابلے میں گوشت کے استعمال کی شرح میں اضافہ، زیادہ ہوائی سفر، جنگلات کی تیزی سے کٹائی اور عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافے جیسے اقدامات موسمیاتی تبدیلیوں کی رفتار میں اضافہ کررہے ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ اس بحران کی شدت کو سمجھیں، پیشرفت پر نظر رکھیں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ترجیحات طے کریں، اس مقصد کے لیے عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر معاشرتی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جبکہ قدرتی نظام کو اپنانا ہوگا۔
خط میں 6 بنیادی نکات پر زور دیا گیا، یعنی روایتی ایندھن کو بدل دینا، میتھین اور دیگر آلودگی کی روک تھام، ماحولیاتی نظام کی بحالی اور تحفظ، کم گوشت کھانا، کاربن فری معیشت کو اپنانا اور آبادی کی نشوونما کو مستحکم رکھنا۔
سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، سمندر گرم ہورہے ہیں، موسمیاتی شدت بڑھ چکی ہے، سمندری سطح بلند ہورہی ہے، برف تیزی سے پگھل رہی ہے اور یہ سب تبدیلیاں فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیتی ہیں۔