دنیائے کرکٹ میں ٹی20 فارمیٹ کا آغاز آکلینڈ میں میزبان ملک نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان 2005ء میں کھیلے گئے میچ سے ہوا تھا۔ صرف 14 برسوں کے قلیل عرصے میں اس فارمیٹ میں ایک ہزار میچ کھیلے جاچکے ہیں۔
آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس سنگِ میل کو عبور کرنے کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کو 107 سال کا طویل عرصہ لگا تھا جبکہ ایک روزہ کرکٹ کو 24 سال لگے۔
پاکستانی ٹیم نے کرکٹ کے ان 2 فارمیٹس کے مقابلے میں ٹی20 کرکٹ میں زیادہ بہتر کارکردگی پیش کی ہے اور اس وقت قومی ٹیم آئی سی سی رینگنگ میں پہلے نمبر پر ہے۔
پاکستان نے اس فارمٹ میں اپنا پہلا میچ 2006ء میں برسٹل کے مقام پر انگلینڈ کے خلاف کھیلا تھا۔ ٹیسٹ اور ایک روزہ کرکٹ میں تو پاکستان کو اپنے اوّلین میچ میں شکست ہوئی تھی تاہم ٹی20 میں پاکستان نے پہلا میچ 5 وکٹوں سے جیت کر اس فارمیٹ کا فاتحانہ آغاز کیا۔
پاکستانی ٹیم 144 میچوں کے ساتھ اس وقت سب سے زیادہ ٹی20 کھیلنے والی ٹیم بھی ہے۔ ان 144 میچوں میں سے پاکستان نے 90 مقابلے جیتے جبکہ 54 مقابلوں میں قومی ٹیم کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
ٹی20 کرکٹ میں پاکستان کے تابناک ماضی سے چند سنسنی خیز مقابلوں کا احوال قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے:
پاکستان بمقابلہ بھارت، ڈربن 2007ء
ٹی20 کرکٹ کا اوّلین عالمی کپ 2007ء میں جنوبی افریقہ کے میدانوں میں کھیلا گیا تھا۔ اس ٹورنامنٹ کا 10واں میچ 2 روایتی حریفوں پاکستان اور بھارت کے مابین ڈربن کے مقام پر کھیلا گیا تھا۔ اس میچ میں پچ اور موسم کی صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے کپتان شعیب ملک نے ٹاس جیت کر بھارت کو بلے بازی کی دعوت دی۔
پاکستان کی طرف سے محمد آصف اور عمر گل نے باؤلنگ کا آغاز کیا۔ ابتدائی 7 اوورز میں ہی پاکستان کے کپتان کا فیصلہ درست ثابت ہوا کیونکہ صرف 36 رنز کے اسکور پر بھارت کے 4 کھلاڑی آؤٹ ہوگئے تھے۔ محمد آصف نے ابتدائی 7 میں سے 4 اوورز کروائے اور صرف 18 رنز دے کر چاروں کھلاڑیوں کو پویلین بھیجا۔ اس موقعے پر بھارتی کپتان ایم ایس دھونی اور روبن اوتھاپا نے 46 رنز کی شراکت قائم کرکے بھارت کی اننگز کو سہارا دیا۔ مقررہ 20 اوورز میں بھارت نے 9 وکٹوں کے نقصان پر 141 رنز بنائے۔
ہدف کے تعاقب میں قومی ٹیم کا آغاز بھی مایوس کن رہا اور صرف 47 رنز کے اسکور پر 4 کھلاڑی آؤٹ ہوگئے۔ ہر اوور کے ساتھ پاکستان ہدف سے دُور ہورہا تھا۔ اننگز کے 18ویں اوور تک صرف 103 رنز ہی بن سکے اور یوں پاکستان کو اگلی 14 گیندوں پر 39 رنز درکار تھے۔
18ویں اوور کی آخری 2 گیندوں پر طویل عرصے بعد قومی ٹیم میں واپس آنے والے مصباح الحق ایک چھکے اور چوکے کی مدد سے پاکستان کو ہدف کے قریب لے آئے۔ 19ویں اوور میں مصباح الحق اور ان کے ساتھ موجود یاسر عرفات نے 17 رنز حاصل کیے اور پاکستان جیت کے مزید قریب آگیا۔
آخری اوور میں پاکستان کو میچ جیتنے کے لیے 12 رنز درکار تھے۔ ان 12 میں سے 11 رنز پاکستان نے محض 4 گیندوں پر ہی حاصل کرلیے تھے، یعنی اب میچ جیتنے کے لیے 2 گیندوں پر صرف ایک رن چاہیے تھا اور جیت بظاہر یقینی نظر آرہی تھی لیکن پھر معلوم نہیں کیا ہوا اور صرف 12 گیندوں پر 38 رنز بنانے والی ٹیم آخری 2 گیندوں پر ایک رن نہیں بنا سکی۔
ایک دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلے کے بعد یہ میچ ٹائی ہوگیا۔ ٹورنامنٹ کے قوانین کے مطابق میچ کے فاتح کا فیصلہ ہونا لازمی تھا اور یہ فیصلہ باؤل آؤٹ (Bowl out) کے ذریعے کیا گیا۔ دونوں ٹیموں کی طرف سے 5، 5 کھلاڑی نامزد کیے گئے جنہیں خالی اسٹمپس پر گیند مارنی تھی۔
بھارت کے 3 کھلاڑیوں نے اسٹمپس پر گیند مار دی لیکن پاکستان کے نامزد تینوں ابتدائی کھلاڑی یہ کام کرنے میں ناکام رہے اور یوں ایک دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلے کے بعد بھارت نے یہ میچ جیت لیا۔ یہ مقابلہ اور اس ٹورنامنٹ کا فائنل، یہ 2 ایسے مقابلے ہیں جب پاکستان کسی بھی عالمی کپ میں بھارت کو شکست دینے کے بہت قریب آکر بھی اپنی منزل کو پانے میں ناکام رہا۔
پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ، ٹی20 ورلڈ کپ، اوول 2009ء
ٹی20 کرکٹ کا دوسرا عالمی کپ 2009ء میں انگلینڈ کے میدانوں میں کھیلا گیا۔ پہلے عالمی کپ کے برعکس دوسرے عالمی کپ میں پاکستان کا آغاز مایوس کن رہا اور قومی ٹیم اپنے ابتدائی 3 میچوں میں سے صرف ایک میچ ہی جیت سکی۔
نیوزی لینڈ کے خلاف اوول کے مقام پر پاکستان کو اگلے راؤنڈ تک رسائی کے لیے میچ جیتنا لازمی تھا۔ نیوزی لینڈ کے کپتان ڈینیئل ویٹوری نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔
نیوزی لینڈ نے اپنی اننگز کی ابتدائی 10 گیندوں پر 17 رنز بنا کر پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی تھی۔ اس موقعے پر 2 سال بعد قومی ٹیم میں واپس آنے والے عبدالرزاق نے یکے بعد دیگرے 2 وکٹیں حاصل کرکے پاکستان کے لیے امید کی کرن روشن کی اور پھر عمر گل نیوزی لینڈ کے بلے بازوں پر قہر بن کر ٹوٹے۔