’ہم نہیں چاہتے کہ بابر کپتانی کے بوجھ تلے آ کر کُچلے جائیں‘

قومی ٹیم میں ایک کپتان کی آمد اور دوسرے کی رخصتی، ہماری قوم کئی بار دیکھ چکی ہے۔ متعدد موقعوں پر اختتام کچھ زیادہ بھلا نہیں رہا، سرفراز احمد کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا۔
ریکارڈ 11 سیریز میں مسلسل فتح بلاشبہ سرفراز کی بطور ٹی20 کپتان ایک شاندار کامیابی تھی۔ یہی نہیں بلکہ جون 2017ء میں آئی سی سی چیمپئن ٹرافی میں کامیابی بھی انہی کی قیادت میں پاکستان کو نصیب ہوئی تھی۔ مگر پھر ناتجربہ کار سری لنکن ٹیم نے ہمیں اپنے ہی میدانوں میں ناقابلِ قبول شکست سے دوچار کیا اور یوں سرفراز کا دورِ کپتانی اختتام کو پہنچا۔
ان کے یوں عالمی منظرنامے سے جانے سے متعلق ملا جلا ردِعمل دیکھنے کو ملا اور اس فیصلے نے مباحثے کے طویل دور کا سلسلہ شروع کردیا۔ خیر، ہم امید کرتے ہیں کہ یہ وکٹ کیپر/بلے باز کی غیر حاضری وقتی ہوگی اور وہ جلد واپسی کریں گے۔
تاہم، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آخر ایک ایسے کھلاڑی کو کیوں برطرف کیا گیا جس نے اپنی قیادت میں پاکستان کو 37 میچوں میں سے 28 میں کامیابی دلوا کر آئی سی سی ٹی20 ٹیم کی درجہ بندی میں نمبر ون تک پہنچایا؟
یہ مانا کہ حالیہ کچھ عرصے سے ان کی بلے بازی اور وکٹ کیپنگ فارم میں نہیں ہے۔ لیکن ٹیم میں متعدد ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو بیٹنگ اور باؤلنگ میں کارکردگی نہیں دکھا پا رہے، ایسے میں اچانک سرفراز کو کپتانی سے ہٹانے اور ٹیم سے نکالنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟
سرفراز احمد کے بعد اب قیادت کی ذمہ داری بابر اعظم پر آچکی ہے جو مختصر طرز کی کرکٹ میں قومی ٹیم کے 8ویں کپتان ہوں گے۔ لیکن عالمی رینکنگ میں ٹاپ پوزیشن پر موجود بابر اعظم کو قیادت کا معمولی تجربہ رکھنے کی وجہ سے مشکل بلکہ بہت زیادہ مشکل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ بابر کے سر پر سب سے بھاری بوجھ کپتانی کی ذمہ داری کا ہی ہوگا۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو ایک شخص سے تدبیری صلاحیتوں اور میدان میں کھیلنے کی مطلوبہ مہارت کا تقاضا کرتا ہے۔
عظیم بھارتی کھلاڑی سچن ٹنڈولکر کو بھارتی قومی ٹیم کی قیادت کا کام سونپا گیا، لیکن جب تک ان کے پاس قیادت رہی وہ پریشان ہی رہے۔ ان کے علاوہ کرکٹ کی تاریخ میں ایسے متعدد عظیم کھلاڑی گزرے ہیں جنہیں کپتانی کا بوجھ اٹھانے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ بابر اعظم کی کپتانی کو لے کر ایک خدشہ تو ابھی سے ظاہر کیا جا رہا ہے اور وہ یہ کہ بابر کے ناپختہ کاندھے اس پُرکشش عہدے کی بھاری زمہ داری کے بوجھ تلے آسکتے ہیں جس کے باعث ان کی شاندار بلے بازی کو زک پہنچ سکتی ہے۔
ہر کھلاڑی کپتانی کی بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا کیونکہ رہنما راتوں رات پیدا نہیں ہوجاتے۔ کسی بھی کھلاڑی کو یہ ذمہ داری سونپنا اس کی صلاحیتوں سے جوا کھیلنے کے مترادف ہے۔
ہماری کرکٹ میں اس خامی کی ایک اہم وجہ مناسب گرومنگ کا فقدان ہے۔ دورِ جدید کے کپتانوں کو اب صرف معمول کے مطابق ٹیم میں اتحاد اور نظم و ضبط قائم کرنا ہی نہیں ہوتا بلکہ انہیں ہر قسم کے میڈیا کو سنبھالنے کا فن بھی آنا چاہیے۔ کسی بھی کپتان کے لیے پریس کانفرنس کا سامنا کرنا ایک مشکل ترین کام ہوتا ہے کیونکہ اس دوران ان سے نہایت مشکل اور پیچیدہ سوال پوچھے جاسکتے ہیں۔
ہر صورتحال کا بھرپور انداز میں سامنا کرنے کا فن رکھنے والے این چیپل کو اپنی غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے کھیلوں کے حلقوں میں نہایت معزز حیثیت حاصل ہے۔
1970ء کی دہائی میں چیپل نے دنیائے کرکٹ میں بہترین کپتان کے طور پر شہرت حاصل کی اور اپنی ممتاز کپتانی کے ساتھ آسٹریلیا کی قیادت سنبھالی۔ چند برس قبل انہوں نے فنِ کپتانی کے بارے میں اپنے ایک فکر انگیز مضمون میں لکھا تھا کہ ’ایک کپتان کو اپنی ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کو جاننا بہت ضروری ہے۔ کپتان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کس کھلاڑی کی پیٹھ تھپتھپانے سے اور کس کھلاڑی کے کولہے پر لات مارنے سے وہ اچھا ردِعمل دے گا۔ اگر کسی کو میدان میں ثمر چاہیے اور وہ محترم رہنما بننا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ بیج بونے کے چند گھنٹوں بعد کھلاڑیوں کے ساتھ وقت گزارے۔ ایک بار اس نے یہ درجہ حاصل کرلیا تو اس کے لیے ایک اچھا کپتان بننے کی راہ ہموار ہوجائے گی‘۔
یہ مضمون 3 نومبر 2019ء کو ڈان اخبار کے ایؤس میگزین میں شائع ہوا۔