سینیٹ میں ’آرڈیننس کے ذریعے حکمرانی‘ پر تنازع شدت اختیار کرگیا
اسلام آباد: حکومت کی جانب سے صدارتی فرمان (آرڈیننس) کے ذریعے حکومت کرنے کی پالیسی پر تنازع اس وقت مزید زور پکڑ گیا جب صدارتی آرڈیننس کو سینیٹ میں پیش کرنے کے حوالے سے ان کا مبہم جواب اپوزیشن کو مطمئن نہیں کرسکا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جانب سے حکومت کو موجودہ سیشن میں آرڈیننس پیش کرنے کا پابند کرنے کے حوالے سے رولنگ دینے پر انکار کرنے کے باعث سینیٹ اجلاس کو بغیر کسی کارروائی کے معطل کرنا پڑا۔
سینیٹ کی کارروائی میں غیر معمولی طرز عمل اس وقت دیکھنے میں آیا جب اپوزیشن اراکین چیئرمین کے پوڈیم کے سامنے کھڑے ہوکر ’نو ٹو آرڈیننس‘، ’نو ٹو سویلین ڈکٹیٹر شپ اور پارلیمنٹ کو عزت دو' کے نعرے بلند کرنے لگے اور یہ سلسلہ پریزائڈنگ آفیسر ستارہ ایاز کی جانب سے اجلاس آج تک کے لیے ملتوی کرنے کے بعد بھی جاری رہا۔
یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے 'مفاد عامہ' کے 8 آرڈیننس نافذ کردیے
سینیٹ اجلاس کے آغاز میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر رضا ربانی نے رولنگ مقرر کرتے ہوئے کہا کہ ’آئین میں آرڈیننس پیش کرنے کی گنجائش موجود ہے لیکن یہ صرف اس وقت ہوسکتا ہے جب پارلیمان فعال نہ ہو اور یہ مقننہ کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘۔
سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ آئین کی دفعہ 89 (1) کے تحت ’صدر، سوائے جب قومی اسمبلی کا اجلاس ہورہا ہو، اگر اس بارے میں مطمئن ہوں کہ ایسے حالات موجود ہیں جن کی بنا پر فوری کارروائی ضروری ہوگئی ہے تو وہ حالات کے تقاضے کے مطابق آرڈیننز وضع اور نافذ کرسکے گا‘۔
رضا ربانی کا مزید کہنا تھا کہ صدر میکانی اعتبار سے ایسی سمری موصول ہونے پر نہیں کرسکے بلکہ انہیں مطمئن کرنا پڑے گا، اطمینان سے مراد انہیں اپنے ذہن کا استعمال کرتے ہوئے دیکھنا ہوگا کہ آیا صورتحال ایسی ہے کہ جو آرڈیننس کی نفاذ کی اجازت دیتی ہو۔
مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات میں کب، کیا اور کیسے ہوتا ہے؟ مکمل طریقہ
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پارلیمان کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ کسی آرڈیننس کو نامناسب سمجھتے ہوئے نامنظور کردے۔
سینیٹر رضا ربانی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے وزیر پارلیمانی امور سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ آرڈیننس پیش کیا جائے گا لیکن یہ آج کے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا کیوں کہ آج سینیٹ کا اجلاس اپوزیشن نے بلوایا تھا۔
تاہم پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ ایسی رولنگ موجود ہے جس کے تحت بلائے گئے سیشن میں ہی حکومت اپنا ایجنڈا بھی شامل کرسکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایوانِ صدارت ’آرڈیننس فیکٹری‘ بن چکا ہے اور اس آرڈیننس نامنظور ہونے کے خوف سے سینیٹ کا اجلاس منعقد ہی نہیں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ: ججز سے متعلق حکومتی ریفرنس کے خلاف اپوزیشن کی قرارداد منظور
اجلاس میں جب سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے پوچھا کہ حکومت کب تک آرڈیننس ایوان میں پیش کرے گی تو وزیر پارلیمانی امور مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی دور میں جاری کیے گئے صدارتی آرڈیننس کی تفصیلات بتانے لگ گئے۔
جس پر ڈپٹی چیئرمین نے خصوصی طور پر اسی بات کا جواب دینے کا تو سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ آرڈیننس ایوان میں منظوری کے لیے ’مناسب‘ اور ’بہتر‘ وقت پر پیش کیا جائے گا۔