انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی کی قیادت نے متفقہ طور پر محسوس کیا کہ پاکستان کا اقتصادی اور معاشی بحران ملک کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ 14 ماہ میں ملک کو جس انداز میں اس اناڑی حکومت نے چلایا ہے ہماری معیشت کے تسلسل کو خراب کردیا ہے، دنیا میں کوئی مثال نہیں ہے ایک سال میں ملک ساڑھے 3 فیصد معاشی گراوٹ کا نشانہ بنی ہو۔
مسلم لیگ(ن) کے رہنما کا کہنا تھا کہ عام آدمی کی زندگی اجیرن بن چکی ہے، روزگار کے دروازے بند چکے ہیں روزانہ کارخانے بند ہورہے ہیں، ریڑھی والے سے ارب پتی تک معیشت کو چلانا مشکل ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری طرف پارلیمنٹ کو تالے لگ چکے ہیں اور ایوان صدر آرڈیننس فیکٹری بن گیا ہے، تمام چور دروازوں سے قانون سازی کی جارہی ہے جس سے پارلیمنٹ بے توقیر ہو گیا ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ احتساب عدالت ججوں کی تقرریاں کی جارہی ہیں واٹس ایپ سے ججوں کو لگایا اورہٹایا جاتا ہے اس نے لوگوں کی نظر میں نظام عدل پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔
مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ میڈیا کی زبان بندی کی گئی ہے، آزادی رائے کے آئینی حق کو سلب کیا جاچکا ہے اور قائد اعظم کے جمہوری پاکستان کو عمران خان کے فاشسٹ پاکستان میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ سفارت کاری تنہائی میں جارہی ہے کشمیر پر سفارتی کارکردگی باعث شرمندگی ہے کہ حکومت 16ووٹ حاصل نہ کر سکی، اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت او آئی سی کا اجلاس تک نہیں بلا سکی۔
انہوں نے کہا کہ آج ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ریاست کو فنکشنل کرنے کےلیے جائزہ لینا چاہیے پاکستان کو ری سیٹ کی ضرورت ہے، کوئی شخص اپنی گاڑی پر ایسے ڈرائیور کو نہیں بٹھاتا جو روز ایکسیڈنٹ کرے۔
احسن اقبال نے کہا کہ آزادی مارچ کے لیے ہم عمران خان کو قصوروار سمجھتے ہیں،پاکستانی سیاست میں عمران خان نے جتھوں کے ساتھ استعفوں کے مطالبوں کی بنیاد ڈالی لیکن اب تک آزادی مارچ کے پلیٹ فارم سے کسی نے عام آدمی کی دسترس سے باہر ہونے کے باجود بجلی کے بلوں کو آگ نہیں لگائی اور قوم کو یہ دعوت نہیں دی کہ تم بجلی کے بل ادا نہ کرو۔
انہوں نے کہا کہ کسی نے آزادی مارچ سے یہ نہیں کہا کہ آپ نے زر مبادلہ نہیں بھیجنا، کسی نے یہ نہیں کہا کہ میں ان لوگوں کو پھانسی کے پھندے پر لے جاؤں گا، کسی نے ملک کے سرکاری ملازمین کو یہ نہیں کہا کہ وہ بغاوت کردیں۔
مسلم لیگ(ن) نے کہا کہ جنہوں نے کل تک ملک میں انتشار پھیلانے کی باتیں کیں تھیں انہیں اس زبان میں جواب نہیں ممل رہا چونکہ اپوزیشن جماعتیں ذمہ دار ہیں ہم جمہوری قوتیں ہیں، ہم تاریخ کو، عوام کو اور اپنے ضمیر کو جواب دہ ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ آج کے اجلاس کی تجاویز کو رہبر کمیٹی کے اجلاس میں پیش کریں گے تاکہ مشرکہ فیصلہ کیا جا سکے، ہمارا فیصلہ ہے کہ حکومت کیخلاف جدوجہد میں مشترکہ حکمت عملی بنائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں شہباز شریف نے شرکت کرنی تھی لیکن ہماری جماعت کے مشاورتی اجلاس کی وجہ سے نہیں شریک ہو سکے۔
احسن اقبال نے کہا کہ پارٹی اجلاس کی ت تجاویز کو رہبر کمیٹی میں پیش کریں کوشش کرسکیں کہ اس حکومت کو رخصت کر کے آزادانہ انتخابات کے لیے راہ ہموار کرنے اپنی جمہوری جدوجہد کو فیصلہ کن انداز میں آگے بڑھاسکیں۔
اجلاس سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے (ن) لیگ کے رہنما خرم دستگیر نے کہاتھا کہ پہلے نواز شریف کے خط کی روشنی میں آزادی مارچ کا استقبال کیا اور جلسے میں شرکت کی۔
انہوں نے کہا تھا کہ اب آج کے اجلاس میں دھرنے کی آئندہ کی حکمت عملی سے متعلق فیصلہ کریں گے اور اب ہم نے دیکھنا ہے کہ آزاد، شفاف انتخابات تک کیسے جانا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما محمد زبیر نے کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) پہلے ہی کہہ چکی ہے آزادی مارچ میں جائیں گے دھرنے میں نہیں۔
محمد زبیر نے کہا تھا کہ ہم دعا گو ہیں کہ حکومت اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان معاملات احسن طریقے سے طے پا جائیں، تشدد اور غہر یقینی کی صورتحال نہیں پیدا ہونی چاہیے۔
ڈی چوک اور ریڈ زون کی جانب مارچ نہ کرنے کا فیصلہ
خیال رہے کہ گزشتہ روز مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے استعفے سے متعلق دی گئی ڈیڈلائن ختم ہوگئی تھی۔
جس کے بعد اگلی حکمت عملی پر حتمی مشاورت اور پلان بی پر بھی غور کے لیےجمعیت علمائے اسلام (ف) کی زیر صدارت پارٹی کی مرکزی شوریٰ کے اجلاس طلب کیا گیا تھا جس میں شوریٰ اراکین اور صوبوں کے امیر شریک ہوئے تھے۔
اجلاس کے بعد آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ یہاں سے پسپائی نہیں بلکہ پیش رفت کریں گے اور پورے ملک کو اجتماع گاہ بنائیں گے۔
مزید پڑھیں: حکومت، استعفیٰ کے سوا اپوزیشن کے تمام مطالبات پر مذاکرات کیلئے تیار
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم یہاں سے جائیں گے تو پیش رفت کی صورت میں جائیں گے اور آگے بڑھ کر اس سے سخت حملہ کرنے کی طرف جائیں گے اور حکمرانوں کو بتائیں گے کہ آج ایک اسلام آباد بند ہے ان شااللہ پورا پاکستان بند کرکے دکھا دیں گے، آج ایک اسلام آباد میں اجتماع ہے، پورے پاکستان کو اجتماع گاہ بنا کردکھائیں گے'۔
اس سے ایک روز قبل آزادی مارچ سے متعلق مشاورت کے لیے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کا اجلاس جے یو آئی (ف) کے رہنما اکرم خان درانی کی رہائش گاہ پر طلب کیا گیا تھا۔
رہبر کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کمیٹی کے کنوینر اکرم خان درانی نے کہا تھا کہ اجلاس میں مختلف تجاویز زیر غور آئی ہیں اور ان تجاویز پر تمام جماعتیں تبادلہ خیال کریں گی جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔
رہبر کمیٹی نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ سے استعفے، شٹرڈاؤن، ہڑتال اور ملک بھر میں احتجاج کے آپشنز زیر غور ہیں۔
اسی روز حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی سے ٹیلیفونک رابطہ کرکے ملاقات کا وقت مانگا تھا تاہم اب تک اس حوالے سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔
آزادی مارچ یکم نومبر کا جلسہ
واضح رہے کہ 31 اکتوبر کی رات میں آزادی مارچ کے قافلے اسلام آباد میں داخل ہوئے تھے، تاہم آزادی مارچ کے سلسلے میں ہونے والے جلسے کا باضابطہ آغاز یکم نومبر سے ہوا تھا، جس میں مولانا فضل الرحمٰن کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت مخالف ’آزادی مارچ‘ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو استعفیٰ دینے کے لیے دو دن کی مہلت دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) کا جے یو آئی (ف) کے دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا تھا کہ پاکستان پر حکومت کرنے کا حق عوام کا ہے کسی ادارے کو پاکستان پر مسلط ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں۔
جلسے سے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے خطاب میں کہا تھا کہ 'عمران خان کا دماغ خالی ہے، بھیجہ نہیں ہے اور یہ جادو ٹونے سے حکومت چلا رہے ہیں، جادو ٹونے اور پھونکیں مار کر تعیناتیاں ہورہی ہیں'۔
مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن نے کراچی سے آزادی مارچ کا آغاز کردیا
شہباز شریف نے کہا تھا کہ 'مجھے خطرہ یہ ہے کہ یہ جو جادو ٹونے سے تبدیلی لانا چاہتے تھے وہ پاکستان کی سب سے بڑی بربادی بن گئی ہے، میں نے 72 برس میں پاکستان کی اتنی بدتر صورتحال نہیں دیکھی'۔
علاوہ ازیں پاکستان پپپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آزادی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'مولانا فضل الرحمٰن اور متحد اپوزیشن کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہر جمہوری قدم میں ہم ساتھ ہوں گے اور ہم اس کٹھ پتلی، سلیکٹڈ وزیراعظم کو گھر بھیجیں گے'۔
جے یو آئی (ف) کا ’آزادی مارچ‘ کب شروع ہوا؟
واضح رہے کہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے 25 اگست کو اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا ارادہ رکھتی ہے، جس کا مقصد اکتوبر میں 'جعلی حکومت' کو گھر بھیجنا ہے۔
ابتدائی طور پر اس احتجاج، جسے 'آزادی مارچ' کا نام دیا گیا تھا، اس کی تاریخ 27 اکتوبر رکھی گئی تھی لیکن بعد ازاں مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا تھا کہ لانگ مارچ کے شرکا 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔
مذکورہ احتجاج کے سلسلے میں مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی تھی۔
18 اکتوبر کو مسلم لیگ (ن) نے آزادی مارچ کی حمایت کرتے ہوئے اس میں بھرپور شرکت کا اعلان کیا تھا تاہم 11 ستمبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے مولانا فضل الرحمٰن کے اسلام آباد میں دھرنے میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اخلاقی اور سیاسی طور پر ان کے احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔
حکومت نے اسی روز اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی۔
پی پی پی کی جانب سے تحفظات اور ناراضی کا اظہار کیے جانے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن، پیپلز پارٹی کو منانے کے لیے متحرک ہوگئے تھے اور حکومتی کمیٹی سے مذاکرات منسوخ کردیے تھے۔
بعدازاں وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں اپوزیشن جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کو 'آزادی مارچ' منعقد کرنے کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
جس کے بعد جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں آزادی مارچ کا آغاز 27 مارچ کو کراچی سے ہوا تھا جو سندھ کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا لاہور اور پھر گوجر خان پہنچا تھا اور 31 اکتوبر کی شب راولپنڈی سے ہوتا ہوا اسلام آباد میں داخل ہوا تھا۔