پاکستان

لاہورہائیکورٹ: فضل الرحمٰن کے خلاف 'اشتعال انگیز تقاریر' پر کارروائی کی درخواست

پیمرا کو حکم دیا جائے کہ وہ چینلز کو ہدایت دیں کہ آزادی مارچ میں فضل الرحمٰن کی نفرت انگیز تقاریر نشر نہ کریں، درخواست
|

لاہور ہائی کورٹ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف 'حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے، منافرت پھیلانے اور ریاست کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر' کرنے پر کارروائی کے لیے درخواست دائر کردی گئی۔

عدالت عالیہ میں ایڈووکیٹ ندیم سرور کی جانب سے مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف یہ درخواست دائر کی گئی۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے بیان دیا کہ 'آزادی مارچ کے شرکا وزیراعظم ہاؤس جاکر عمران خان کو گرفتار کرسکتے ہیں، اس طرح لوگوں کو ریاست کے خلاف اکسانا بغاوت کے زمرے میں آتا ہے'۔

اس درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو حکم دے کہ وہ ٹی وی چینلز کو ہدایت کرے کہ وہ آزادی مارچ میں مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے نفرت اور اشتعال انگیز تقاریر نشر نہ کرے'۔

مزید پڑھیں: آزادی مارچ: 2 دن کی مہلت ہے وزیراعظم استعفیٰ دے دیں، مولانا فضل الرحمٰن

ساتھ ہی درخواست گزار نے کہا کہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ جماعتوں کو جمہوری مخالف جماعتیں قرار دینے سے پہلے ماضی میں وزارتوں، فائدہ اٹھانے اور استحقاق کے لیے تقریباً ہر سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کیا۔

اس درخواست میں وفاقی حکومت اور جے یو آئی (ف) کے سربراہ کو فریق بنایا گیا اور موقف اپنایا گیا کہ مولانا فضل الرحمٰن اپنی تقاریر سے لوگوں کو اکسا رہے جس سے ملک میں انتشار پھیلنے کا خدشہ ہے، لہٰذا ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

واضح رہے کہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں حکومت مخالف 'آزادی مارچ' اسلام آباد میں جاری ہے۔

27 اکتوبر کو کراچی سے شروع ہونے والا یہ آزادی مارچ، سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے ہوتا ہوا 31 اکتوبر کی رات میں اسلام آباد پہنچا تھا۔

بعد ازاں یکم نومبر کو آزادی مارچ کے باقائدہ جلسے سے جے یو آئی (ف) کے سربراہ سمیت اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زردای نے بھی خطاب کیا تھا اور حکومت پر سخت تنقید کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت، استعفیٰ کے سوا اپوزیشن کے تمام مطالبات پر مذاکرات کیلئے تیار

جلسے سے خطاب میں مولانا فضل الرحمٰن نے وزیراعظم عمران خان کو مستعفیٰ ہونے کے لیے 2 دن کی مہلت دیتے ہوئے اداروں پر بھی تنقید کی تھی۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ 'یہ ہماری پرامن صلاحیتوں کا اظہار ہے، ہم پرامن لوگ ہیں اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ امن کے دائرے میں رہیں ورنہ اسلام آباد کے اندر پاکستان کے عوام کا یہ سمندر اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ وزیراعظم کے گھر کے اندر جاکر وزیراعظم کو خود گرفتار کرلے'۔

اس بیان کے بعد 2 نومبر کو حکومت کی مذاکراتی ٹیم نے ایک پریس کانفرنس کی تھی اور کہا تھا کہ مولانا کا یہ بیان لوگوں کو اکسانا اور بغاوت ہے اور اس پر عدالت جانے کا اعلان کیا گیا تھا۔

ملک میں عمران خان کا کوئی متبادل نہیں، فواد چوہدری

اسلام آباد ہائیکورٹ: ای سی پی اراکین کی تعیناتی کا صدارتی نوٹیفکیشن معطل

جسٹس گلزار احمد نے قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھا لیا