نقطہ نظر

’20 سال پڑھانے کے بعد بھی سوچتا ہوں کہ طلبا کا مزاج کیسے ٹھیک کروں‘

ضرورت ہے کہ طلبا پہلے مطالعہ کریں اور پھر اس کی روشنی میں دنیا کا فہم حاصل کریں۔ ہمارے یہاں اس رجحان کی کمی پائی جاتی ہے
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

طلبا کے اسائمنٹس خواہ وہ گریجویٹ اور انڈر گریجویٹ کے درجے کے ہی کیوں نہ ہوں، انہیں پڑھ کر افسوس کے ساتھ یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ کس طرح طلبا اپنے مطالعے اور/یا کمرہ جماعت میں ہونے والے مباحثوں سے علم حاصل (نہیں) کررہے ہیں۔

کچھ ایسے طلبا بھی ہیں جو دوسرے کی نقل کرتے ہیں اور لوگوں کے پہلے سے کیے گئے کام کی چوری کرلیتے ہیں۔ ایسے طلبا تو ہر کلاس اور/یا یونیورسٹی میں ہوتے ہیں، لیکن میں یہاں ان کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ ایسے طلبا کی جانب سے پڑھائی کا یہ طریقہ اپنانے کے پیچھے اہم وجہ محض ڈگری یا ڈپلومہ کا حصول ہوتا ہے یا پھر اس کی وجہ کچھ اور ہوتی ہے، خیر اس موضوع پر پھر کبھی بات کریں گے۔

جب میں اسائمنٹس کے صفحے پڑھتا ہوں تو متعدد صفحوں پر طلبا کو اسائن کردہ نصابی کتب/یا مقالوں کے مختصر خلاصے لکھے ہوتے ہیں۔ تحقیقی مقالوں کی جہاں تک بات ہے تو ان میں اپنی طرف سے کیے گئے کسی تجرباتی یا مشاہداتی کام سے زیادہ کام تصوراتی خاکوں، تجزیوں اور لوگوں کی سوچ اور تحریر سے اخذ کیا گیا ہوتا ہے۔

مجھے تدریس کے شعبے میں 2 دہائیاں گزر چکی ہیں اور اس دوران جو ایک بات مجھے سب سے زیادہ مشکل لگی ہے وہ یہ کہ آخر میں کس طرح طلبا کو انہیں اپنی پڑھائی اور اپنے پڑھنے کے طریقے پر غور و فکر کرنے کی ترغیب دوں۔

اس بات کا تعلق صرف مطالعے میں تیزی لانے یا کسی موضوع کو تیزی سے سمجھنے وغیرہ سے ہی نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ کس طرح موضوعات کو اپنے اندر اتارنا ہے، کس طرح انہیں یکجا کرنا ہے اور کس طرح تعلیم اپنے فہم کو صورت دیتی ہے اور پھر کس طرح وہ پڑھائی ان کے علم اور دنیا و زندگی کے نظریے و تصور میں جھلکنی چاہیے۔

پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ایسے کئی طلبا ہیں جو وسیع مطالعہ نہیں کرتے۔ بعض اوقات تو طلبا استاد کی جانب سے اسائن کی گئی تحریر اور/یا مقالوں کو بھی نہیں پڑھتے۔ یہی نہیں بلکہ طلبا خود کو اسائن کردہ مطالعے سے متعلق دیگر کتب یا تحریر بھی نہیں پڑھتے۔ انہیں جس تحریر کا مطالعہ کرنے کا کہا جاتا ہے اس کے بارے میں طلبا کے پاس سیاق و سباق ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی متعلقہ مثالوں تک رسائی ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے پاس موضوع سے متعلق جامع تصورات و خیالات کا ذخیرہ ہوتا ہے جو اضافی مطالعے سے ہی حاصل ہوپاتا ہے۔

طلبا کو عام طور پر بیک وقت متعدد کورسز لینے کے لیے کہا جاتا ہے لہٰذا ان کے اوپر مطالعے کا پہلے سے اچھا خاصا بوجھ ہوتا ہے۔ تاہم، وجہ جو بھی ہو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طلبا اپنے دلچسپی کے موضوع اور اس سے متعلقہ دیگر موضوعات کا زیادہ مطالعہ نہیں کرپاتے۔

کورسز کے بے تحاشا بوجھ کی وجہ سے طلبا کو موضوعات پر اپنے طور پر غور و غوض کرنے کا زیادہ موقع نہیں ملتا۔ طلبا جو پڑھتے ہیں انہیں اس پر غور بھی کرنا ہوتا ہے۔ انہیں کسی ایک موضوع کو مختلف حوالہ جات کے مطالعے، مختلف موضوعات اور بعض اوقات مختلف مضامین سے جوڑ کر پڑھنا ہوتا ہے لیکن سیمسٹرز کے دوران انہیں اتنا وقت نہیں ملتا۔

اگر ان کے پاس فراغت ہو تو بھی زیادہ تر طلبا کو یہ علم نہیں ہوتا کہ کسی ایک موضوع کو کس طرح مختلف مطالعوں، موضوعات اور مضامین کے ساتھ جوڑ کر پڑھا اور سمجھا جاتا ہے۔ ان کی سوچ کی وسعت کافی محدود رہتی ہے۔

میں ایک عرصے سے طلبا کو اقتصادیات پڑھا رہا ہوں۔ اس دوران میں نے پایا کہ طلبا کو مضمون سے متعلق مختلف موضوعات کی تعریف بیان کرنے میں زیادہ دقت پیش نہیں آتی لیکن انہیں تعریف سے جڑے معاملات کی مثالیں دینے میں دشواری آتی ہے۔

طلبا نصاب میں لکھی مثالوں کے علاوہ دیگر مثالیں نہیں دے پاتے، حتیٰ کہ اس سے بھی زیادہ مشکل انہیں اپنی ذاتی زندگی کے تجربات سے متعلق مثالیں دینے میں پریشانی ہوتی ہے۔ تدریسی کام میں سب سے مشکل ترین حصہ بچوں کو اپنے ارد گرد کی ’حقیقی‘ دنیا پر روشنی ڈالنے کی طرف مائل کرنا ہے اور انہیں یہ سوچنے کی ترغیب دینا ہے کہ کس طرح زیرِ مطالعہ تصورات کو ان کے ارد گرد کی دنیا میں منعکس کیا جائے۔

لیکن اگر طلبا مطالعے کو اپنے اندر اتنا نہیں سما پاتے کہ جس کی مدد سے وہ اپنے ارد گرد کی سرگرمیوں کو سمجھنے کے لیے استعمال کرسکتے ہوں تو یہ سیکھنے یا پڑھنے کا عمل (یا کم از کم مکمل طور پر سیکھنے یا پڑھنے کا عمل تو بالکل بھی) نہیں ہے اور ایسے مطالعے سے ان کے آگے بڑھنے سے متعلق کوئی فرق نہیں پڑے گا (یا کم از کم غیر معمولی فرق نہیں پڑے گا)۔

اس مسئلے کا کسی حد تک تعلق اسکول کی سطح پر ابتدائی ٹریننگ سے بھی ہے۔ ہمارے یہاں زیادہ تر پڑھانے اور پڑھنے کے عمل اور پڑھانے اور پڑھنے کا جائزہ لینے کے عمل اور مخصوص موضوعات کو بار بار بغیر تجزیے اور سمجھے پڑھنے سے ہے۔ طلبا کو ریاضی پڑھنے کے جو طریقے سکھائے گئے تھے اور تاریخ کے جن اسباق کو پڑھایا گیا تھا، کیا انہیں آج وہ یاد ہیں؟ اور ہم کس طرح جانیں کہ انہیں موضوعات پوری طرح سے سمجھ آگئے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے ہم انہیں پڑھی پڑھائی باتوں کو دہرانے کے لیے کہتے ہیں۔ طلبا اسی کو ہی پڑھائی یا سیکھنے کے عمل کے طور پر اپنانا شروع کردیتے ہیں اور وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ تعلیم اسی کا نام ہے۔

جب میں اقتصادیات، فلسفے یا تعلیم جیسے مضامین سے متعلق کوئی موضوع یا تصور کے بارے میں طلبا کو پڑھا رہا ہوتا ہوں تب مجھے طلبا کے منہ سے یہ سننے میں دلچسپی نہیں ہوتی کہ کینٹ (Kant) نے اس حوالے سے کیا کہا تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ طلبا کینٹ کو پڑھیں اور اس لیے پڑھیں تاکہ انہیں موضوع کو بہتر اور جامع انداز میں سمجھنے میں مدد ملے۔ اور پھر جب میں یہ چاہتا ہوں کہ طلبا کسی موضوع پر جب مقالہ لکھیں تو مجھے یہ جاننے میں دلچسپی ہوتی ہے کہ انہوں نے اس موضوع پر پہلے کیا کام کیا ہے اور دیگر مصنفین کو پڑھ کر اپنا کون سا نتیجہ اخذ کیا۔ مجھے زیادہ دلچسپی کینٹ میں نہیں بلکہ طلبا کے خیالات میں ہوتی ہے۔

یہاں میں ایک اہم بات سے متعلق خبردار کرنا چاہتا ہوں۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ طلبا کسی بھی تصور یا موضوع کے بارے میں دیگر بہترین مصنفین کا مطالعہ کیے بغیر ہی اپنے طور پر کسی ایک تصور یا موضوع کے بارے میں اپنی رائے قائم کرسکتے ہیں۔ لہٰذا ممکن ہے کہ کینٹ کو پڑھے بغیر آپ موضوع کو بہتر انداز میں سمجھ نہ پائیں اور/یا اس کی گہرائی میں اتر نہ پائیں۔ موضوع کے لیے مطلوبہ مطالعے بغیر قائم کی جانے والی رائے کی زیادہ اہمیت نہیں ہوگی۔ لیکن اگر رائے صرف کینٹ کے الفاظ کی نقل تک محدود ہو تو پھر ایسی رائے بھی اہمیت کی حامل نہیں ہوتی ہے۔

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ طلبا پہلے کینٹ کا مطالعہ کریں اور پھر جو کچھ پڑھا ہے اس کی روشنی میں دنیا کا فہم حاصل کیا جائے۔ عام طور پر طلبا میں اس رجحان کی کمی پائی جاتی ہے۔

تعلیم اور پڑھائی کا مطلب ہی یہ ہے کہ ان باتوں میں شریک ہوا جائے جو ایک عرصے سے کی جا رہی ہیں اور آگے بھی کی جاتی رہیں گی۔ بچے انہی باتوں کو جان کر اپنی قابلیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ تعلیم کا مقصد صرف مخصوص ہنر، طریقے یا مخصوص حقائق کا علم حاصل کرنا نہیں ہے۔

پاکستان میں تنقیدی سوچ اور علم حاصل کرنے کے عمل پر پہلے ہی کافی گفتگو کی جاچکی ہے اور اب بھی جاری ہے۔ یہ مضمون دراصل وسیع بنیادوں پر ہونے والی اس گفتگو میں زیرِ غور چند باعثِ فکر پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔


یہ مضمون یکم نومبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

فیصل باری

لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس faisal.bari@ideaspak.org اور bari@lums.edu.pk ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔