بھارت: خاتون کے 'گینگ ریپ' کی ویڈیو وائرل، ملزمان کے خلاف مقدمہ
بھارت کی ریاست اتر پردیش میں 6 افراد نے ایک خاتون کے ساتھ مبینہ طور پر گینگ ریپ کیا اور واقعے کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کردی۔
بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق گینگ ریپ کا واقعہ اتر پردیش کے ضلع چتراکوٹ میں پیش آیا۔
رپورٹ میں متاثرہ خاتون کے حوالے سے بتایا گیا کہ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے ویڈیو وائرل ہونے کے بعد مقدمہ درج کیا گیا۔
خاتون کا کہنا تھا کہ واقعہ پیر کے روز پیش آیا تھا جبکہ پولیس نے مقدمے کا اندراج جمعہ کے روز کیا گیا۔
مزید پڑھیں: بھارت میں 35 سالہ شخص کا 3 روز تک کم عمر لڑکی کے ساتھ ریپ
رپورٹ کے مطابق خاتون اپنے خاندان کے ایک فرد کے ساتھ ایک عزیز کے گھر پر جارہی تھیں کہ انہیں راستے میں روکا گیا، ان کے ساتھ موجود شخص کو ایک درخت کے ساتھ باندھ کر ملزمان نے خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کیا۔
پولیس افسر ارون پتھاخ نے تصدیق کی کہ 28 اکتوبر کو پیش آنے والے واقعے کی 14 سیکنڈ کی ویڈیو بنائی گئی تھی، ان کا کہنا تھا کہ 6 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے خاتون کو میڈیکل کے لیے بھی بھیج دیا گیا ہے۔
دوسری جانب متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ وہ واقعے کے فوری بعد تھانے گئی تھیں لیکن پولیس نے انہیں واقعہ سننے کے بعد وہاں سے جانے کو کہا تھا۔
بعد ازاں واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد خاتون نے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) سے رابطہ کیا تھا جس کے بعد ان کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں اب تک کا سب سے بڑا ’سیکس اسکینڈل‘ سامنے آگیا
اس سے قبل اگست 2019 میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے قریب ایک 15 سالہ لڑکی کو چند گھنٹوں کے وقفے سے 2 مرتبہ گینگ ریپ کا نشانہ بنانے کا واقعہ پیش آیا تھا۔
جون میں بھارت میں گینگ ریپ سے مزاحمت کرنے پر ماں، بیٹی کو تشدد کا نشانہ بنا کر ان کے سر مونڈھ دیے گئے تھے۔
واضح رہے کہ دنیا میں سب سے بڑی جمہوری ریاست کے دعویدار بھارت میں خواتین کا تحفظ تاحال ایک مسئلہ ہے جہاں 16 دسمبر 2012 کو نئی دہلی میں ایک طالبہ کو چلتی بس میں گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا اور وہ بعد ازاں کئی روز تک ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد دم توڑ گئی تھی۔
آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک بھارت میں ’ریپ‘ کیسز کی شرح کئی ممالک سے زیادہ ہے، صرف 2015 میں ہی ہندوستان بھر میں ’ریپ‘ کے 34 ہزار سے زائد واقعات رپورٹ کیے گئے تھے جبکہ درج نہ ہو پانے والے واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔