دنیا

افغانستان: بارودی سرنگ کے دھماکے میں 9 بچے ہلاک

پولیس افسر کے مطابق ہلاک ہونے والے بچوں کی عمریں 9 سے 12 سال کے درمیان ہیں اور ان کے خاندان کا تعلق طالبان سے تھا۔

افغانستان کے شمال مشرقی صوبے تخار میں بارودی سرنگ کے دھماکے کی زد میں آکر 9 بچے ہلاک ہوگئے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق بچے اسکول جارہے تھے کہ بارودی سرنگ کا نشانہ بن گئے۔

صوبے کے پولیس ترجمان خلیل عصر کا کہنا تھا کہ ‘یہ علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے اور افغان سیکیورٹی فورسز کے حملوں کے باعث طالبان نے اس علاقے میں بارودی سرنگیں بچھا رکھی ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘بد قسمتی سے ان میں سے ایک بارودی سرنگ آج دھماکے سے پھٹ گئی جس کے نتیجے میں پرائمری اسکول کے 9 بچے ہلاک ہوگئے’۔

پولیس افسر کے مطابق ہلاک ہونے والے بچوں کی عمریں 9 سے 12 سال کے درمیان ہیں اور ان کے خاندان کا تعلق طالبان سے تھا۔

مزید پڑھین: مشرقی افغانستان میں 2 بم دھماکے، بچے سمیت 7 افراد ہلاک

ادھر واقعے پر رد عمل کے لیے فوری طور پر طالبان ترجمان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

واضح رہے کہ گزشتہ 18 سال سے جنگ زدہ خطے میں رواں سال سب سے زیادہ شہریوں کی ہلاکتیں سامنے آئی ہیں اور ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد رواں سال کے پہلے 9 ماہ میں 8 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔

گزشتہ ماہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے تعاون مشن نے بتایا تھا کہ رواں سال جولائی سے ستمبر تک 4 ہزار 313 شہری ہلاک ہوئے جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد سے 42 فیصد زیادہ ہے۔

یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے مشن کی جانب سے افغانستان میں شہریوں کی ہلاکتوں کے اعدادوشمار 2009 میں جمع کرنا شروع کیے گئے تھے اور اسی سال ایک ہزار شہری جنگ کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔

خیال رہے کہ 25 اکتوبر 2019 کو افغانستان کے صوبے ننگرہار میں خفیہ ادارے کے عہدیداروں کے قافلے پر طالبان کے حملے میں ایک بچے سمیت 7 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اس واقعے سے قبل صوبہ ننگرہار کی ایک مسجد میں ہونے والے حملے میں تقریباً 60 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

امریکا میں 11 ستمبر 2011 کو حملوں کے بعد ردعمل کے طور پر افغانستان میں جنگ کا آغاز کیا گیا تھا اور اب اس کو 18 برس ہوچکے ہیں لیکن افغانستان میں تاحال امن بحال نہیں ہوسکا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: غزنی یونیورسٹی کے کلاس روم میں دھماکا، 19 طلبہ زخمی

اس دوران امریکا اور طالبان کے درمیان متعدد مرتبہ امن مذاکرات ہوئے لیکن وہ ناکام رہے جبکہ حالیہ کچھ برسوں میں امریکی حکام اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان ایک مرتبہ پھر امن مذاکرات کا آغاز ہوا تھا جبکہ گزشتہ ماہ اچانک امریکی صدر کی جانب سے انہیں معطل کرنے کا اعلان کردیا گیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 19 اکتوبر کو ایک ایسے وقت میں طالبان کے ساتھ مذکرات معطل کرنے کا اعلان کیا تھا جب دونوں فریقین طویل عرصے تک گفت و شنید کے بعد کئی نکات پر متفق ہوچکے تھے اور حتمی معاہدے کا عندیہ دیا جا چکا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے اچانک ٹوئٹ کے بعد افغان طالبان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مذاکرات کی بحالی کے امکانات موجود ہیں لیکن یہ امریکا کی ضرورت ہے۔

تاہم امریکا کا کہنا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کی معطلی کے بعد افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کردیا ہے۔