رہبر کمیٹی کےاجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کے رہنما شریک ہیں—فوٹو: جاوید حسین
ان کا کہنا تھا کہ 'ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے خطرہ پیش نظر کوئی اقدام ہوا تو ہم سب نے کہا کہ وہ ملکی بقا اور سلامتی کے لیے ٹھیک نہیں ہے'۔
تجاویز سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'آگے کے لائحہ عمل کے لیے آج تجاویز پیش ہوئی ہیں جس میں زیر غور استعفے بھی ہیں، شٹر ڈاؤن بھی ہے، ہائی ویز، پورے ملک کو بلاک کرنا اور اضلاع کی سطح پر 20 تاریخ کو ہر ایک وہ کام جو کسی بھی تحریک کے لیے ضروری ہوتے ہیں وہ تمام آپشن آج زیر غور آئے'۔
حکومت کے ساتھ معاہدے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ 'ہم معاہدے پر قائم ہیں، لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہیں جو منظم ہیں اور ایک ہی حکم کے پابند ہیں، کوئی ایک پتہ نہیں گرا لیکن حکومت نے راستے میں مختلف رکاوٹیں پیدا کیں، کرم اور ہنگو کے لوگوں کو گاڑی نہیں مل رہی، شمالی اور جنوبی وزیرستان کے کارکنوں کو گاڑی نہیں مل رہی لیکن جب انہوں نے احتجاج کیا تو اجازت ملی'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے جو کارکن قافلے میں زخمی ہوئے تھے انہیں ہسپتالوں میں داخل نہیں کر رہے ہیں اور ہسپتال کو کہا گیا ہے ان کا علاج نہ کریں'۔
قبل ازیں رہبر کمیٹی کے ترجمان نے بتایا تھا کہ آزادی مارچ سے متعلق مشاورت کے لیے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کا اجلاس جے یو آئی (ف) کے رہنما اکرم خان درانی کی رہائش گاہ پر طلب کیا گیا۔
ترجمان اکرم درانی کا کہنا تھا کہ رہبر کمیٹی کے اجلاس میں آزادی مارچ کو ڈی چوک تک لے کر جانے سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا لیکن اس حوالے سے سوال پر پریس کانفرنس میں واضح نہیں کیا گیا۔
رہبر کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر اور سید نیئر حسین بخاری، پاکستان مسلم لیگ(ن) کے احسن اقبال، امیر مقام، عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریٹری میاں افتخار حسین، نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو اور دیگر شریک تھے۔
حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کا اپوزیشن سے رابطہ
دوسری جانب ذرائع نے بتایا تھا کہ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی سے ٹیلیفونک رابطہ کرکے ملاقات کا وقت مانگا تھا۔
اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے پیپلزپارٹی کے رہنما نیئر بخاری سے ٹیلیفونک گفتگو میں کہا کہ تمام مسائل مشاورت کے ذریعے بیٹھ کر حل کرنا چاہتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق نیئر بخاری نے اپوزیشن رہنماؤں سے مشاورت کے بعد صادق سنجرانی کو اس حوالے سے جواب دینے کا کہا ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ اسپیکر قومی اسمبلی اور حکومتی مذاکراتی ٹیم کے رکن اسد قیصر نے اے این پی کے رہنما میاں افتخار کو ٹیلی فون کی اورآزادی مارچ کے خاتمے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی درخواست کی۔
مذکورہ ذرائع نے بتایا کہ اسدقیصر نے میاں افتخار کو کہا کہ آپ مدبر سیاستدان ہیں صلح صفائی کے لیے کوشش کریں، جس پرمیاں افتخار نے اسپیکراسد قیصر کو تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ رہبر کمیٹی کے اجلاس کے بعد حکومتی مذاکراتی کمیٹی سے بات کریں گے۔
علاوہ ازیں رہبر کمیٹی کے اجلاس کے لیے پہنچنے والے نیئر بخاری کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ نے ملاقات کے لیے رابطہ کیا تھا۔
انہوں نے میڈیا سے غیررسمی گفتگو میں کہا کہ رابطے پرانہیں نے کہا کہ بتایا کہ رہبر کمیٹی کا اجلاس ہے اس کے بعد دیکھتے ہیں۔اس موقع پر صحافی نے سوال کیا کہ کیا پیپلزپارٹی دھرنے کی حمایت کرے گی۔ جس پر انہوں نے کہا کہ رہبر کمیٹی میں جس چیز پر اتفاق ہوا اسے پارٹی قیادت کے سامنے رکھا جائے گا۔
مولانا فضل الرحمٰن کی کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے کی اپیل
قبل ازیں آزادی مارچ کے اسلام آباد میں دوسرے روز جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کارکنوں کے نام خصوصی پیغام میں اپیل کی تھی کہ وہ کارکنان جو آزادی مارچ میں شرکت نہیں کرسکے جلد اسلام آباد کا رخ کریں۔
اس حوالے سے جاری ویڈیو پیغام میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ آزادی مارچ میں اسلام آباد اور پاکستان کے کونے کونے سے جو لوگ پہنچے ہیں میں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمارے سر فخر سے بلند کردیے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ جو لوگ کسی بھی وجہ سے آزادی مارچ میں شرکت نہیں کرسکے یا انہیں ٹرانسپورٹ نہیں ملی اب بھی وقت ہے ہم اسلام آباد میں ہیں وہ از سرِنو کوئی بھی ذریعہ کرکے روانہ ہوں اور آزادی مارچ میں شریک ہوں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اپیل کی تھی کہ جو لوگ رائیونڈ اجتماع میں شریک ہیں امید ہے وہ دعا کے بعد ہمارے قافلے میں شرکت کے لیے پہنچیں گے۔
علاوہ ازیں آج(2 نومبر) صبح آزادی مارچ کے پنڈال میں وزیراعظم عمران خان کا پتلا بنا کر اس کو کنکر مارے گئے، پاؤں تلے روندا گیا اور حکومت مخالف نعرے بازی بھی کی گئی تھی۔
یکم نومبر کا آزادی مارچ کا جلسہ
واضح رہے کہ 31 اکتوبر کی رات میں آزادی مارچ کے قافلے اسلام آباد میں داخل ہوئے تھے، تاہم آزادی مارچ کے سلسلے میں ہونے والے جلسے کا باضابطہ آغاز یکم نومبر سے ہوا تھا، جس میں مولانا فضل الرحمٰن کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت مخالف ’آزادی مارچ‘ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو استعفیٰ دینے کے لیے دو دن کی مہلت دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) کا جے یو آئی (ف) کے دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا تھا کہ پاکستان پر حکومت کرنے کا حق عوام کا ہے کسی ادارے کو پاکستان پر مسلط ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں۔
جلسے سے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے خطاب میں کہا تھا کہ 'عمران خان کا دماغ خالی ہے، بھیجہ نہیں ہے اور یہ جادو ٹونے سے حکومت چلا رہے ہیں، جادو ٹونے اور پھونکیں مار کر تعیناتیاں ہورہی ہیں'۔
مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن نے کراچی سے آزادی مارچ کا آغاز کردیا
شہباز شریف نے کہا تھا کہ 'مجھے خطرہ یہ ہے کہ یہ جو جادو ٹونے سے تبدیلی لانا چاہتے تھے وہ پاکستان کی سب سے بڑی بربادی بن گئی ہے، میں نے 72 برس میں پاکستان کی اتنی بدتر صورتحال نہیں دیکھی'۔
علاوہ ازیں پاکستان پپپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آزادی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'مولانا فضل الرحمٰن اور متحد اپوزیشن کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہر جمہوری قدم میں ہم ساتھ ہوں گے اور ہم اس کٹھ پتلی، سلیکٹڈ وزیراعظم کو گھر بھیجیں گے'۔
پیپلزپارٹی، ن لیگ کا دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
اس آزادی مارچ کے جلسے میں شرکت کے باوجود یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) نے جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما احسن اقبال نے کہا تھا کہ پارٹی کے تاحیات قائد نواز شریف نے انہیں آزادی مارچ میں صرف ایک روز کے لیے شرکت کرنے کا کہا تھا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے بھی بتایا کہ ان کی پارٹی نے کثیر الجماعتی کانفرنسز (ایم پی سی) اور رہبر کمیٹی کے اجلاس کے دوران واضح کردیا تھا وہ غیر معینہ مدت تک جاری رہنے والے دھرنے میں شرکت نہیں کریں گے۔
جے یو آئی (ف) کا ’آزادی مارچ‘ کب شروع ہوا؟
واضح رہے کہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے 25 اگست کو اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا ارادہ رکھتی ہے، جس کا مقصد اکتوبر میں 'جعلی حکومت' کو گھر بھیجنا ہے۔
ابتدائی طور پر اس احتجاج، جسے 'آزادی مارچ' کا نام دیا گیا تھا، اس کی تاریخ 27 اکتوبر رکھی گئی تھی لیکن بعد ازاں مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا تھا کہ لانگ مارچ کے شرکا 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔
مذکورہ احتجاج کے سلسلے میں مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی تھی۔
18 اکتوبر کو مسلم لیگ (ن) نے آزادی مارچ کی حمایت کرتے ہوئے اس میں بھرپور شرکت کا اعلان کیا تھا تاہم 11 ستمبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے مولانا فضل الرحمٰن کے اسلام آباد میں دھرنے میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اخلاقی اور سیاسی طور پر ان کے احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔
حکومت نے اسی روز اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی۔
پی پی پی کی جانب سے تحفظات اور ناراضی کا اظہار کیے جانے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن، پیپلز پارٹی کو منانے کے لیے متحرک ہوگئے تھے اور حکومتی کمیٹی سے مذاکرات منسوخ کردیے تھے۔
بعدازاں وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں اپوزیشن جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کو 'آزادی مارچ' منعقد کرنے کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
جس کے بعد جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں آزادی مارچ کا آغاز 27 مارچ کو کراچی سے ہوا تھا جو سندھ کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا لاہور اور پھر گوجر خان پہنچا تھا اور 31 اکتوبر کی شب راولپنڈی سے ہوتا ہوا اسلام آباد میں داخل ہوا تھا۔