'آن لائن بدسلوکی95 فیصد خواتین صحافیوں کے کام پر اثر انداز ہوتی ہے'
اسلام آباد: پاکستان کی 95 فیصد خواتین صحافیوں کا کہنا ہے کہ آن لائن بدسلوکی ان کے پیشہ وارانہ کام کو متاثر کرتی ہے۔
میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی (ایم ایم ایف ڈی) کی جانب سے خواتین صحافیوں کے خلاف آن لائن بدسلوکی پر مرتب کردہ’ہوسٹائل بائٹس‘ نامی رپورٹ صحافیوں کے خلاف امتیاز کے خاتمے کے عالمی دن پر جاری کی گئی۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 77 فیصد خواتین صحافی آن لائن بدسلوکی سے نمٹنے کے لیے خود سے سینسر شپ کا استعمال کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں خواتین رضاکاروں کی اکثریت کو آن لائن بد سلوکی کا سامنا
ایم ایم ایف ڈی کی رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ صحافیوں کے خلاف بدسلوکی کے معاملے میں زیادہ تر توجہ جسمانی تشدد کو دی جاتی ہے لیکن آن لائن معاملات بھی سنگین ہوسکتے ہیں، بالخصوص خواتین صحافیوں کے خلاف، جنہیں دھمکانے والوں یا ان پلیٹ فارم کو ناقابلِ برداشت بنانے والوں کی سرزنش بھی نہیں ہوتی۔
اس حوالے سے ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ خواتین صحافیوں کو جس قسم کی آن لائن بد سلوکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسے سنجیدہ ہی نہیں لیا جاتا لیکن اس کے ان پر گہرے اثرات پڑتے ہیں۔
تحقیق کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ 110 میں سے 105 خواتین صحافیوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ آن لائن بدسلوکی ان کی ذہنی صحت پر اثر انداز ہوئی۔
مزید پڑھیں: صحافیوں کے خلاف کردار کشی کی منظم آن لائن مہم
اس کے ساتھ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہر 10 میں 3 خواتین صحافیوں کو بلیک میل اور ان خلاف تشدد پر اکسانے جیسے سنگین آن لائن جرائم کا سامنا ہوا۔
تحقیق میں شامل صحافیوں نے جب اپنے خلاف آن لائن بدسلوکی کو رپورٹ کیا تو اس کے جواب میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ملنے والا ردِ عمل انہیں مطمئن نہیں کرسکا۔
اس کے علاوہ وہ ان واقعات کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس رپورٹ کرنے میں بھی ہچکچاہٹ کا شکار نظر آئیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے ادارے جس طرح آن لائن تشدد کے خلاف کارروائی کرتے ہیں اس طریقہ کار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔