’واضح فرق نمایاں ہے‘ ٹھیک نہیں، یا تو واضح لکھ دو یا پھر نمایاں!
خوشی ہوتی ہے جب کوئی بھی اردو کے املا اور صحتِ زبان کے حوالے سے کچھ لکھتا ہے۔ ہمیں بھی سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ 25 اکتوبر کے ایک اخبار میں ایسی ہی ایک کوشش محترم علی عمران جونیر کی طرف سے نظر سے گزری۔
یہاں تک تو بات پتے کی ہے، لیکن آگے لکھتے ہیں ’پتہ درخت والا پتّہ ہوتا ہے‘۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ بھی پتّا ہے، پتّہ نہیں۔ اسی طرح جسم کا ایک عضو پِتّا (پ بالکسر) ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے پِّتا پانی ہوگیا۔ غالباً خوف سے پھٹ جاتا ہوگا۔ لغت کے مطابق ان تینوں الفاظ پتا، پتّا اور پِتّا کے املا میں آخر میں الف آتا ہے۔ بڑا مشہور شعر ہے
پتّا، پتّا، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
ایک مشورہ سب کے لیے ہے۔ ’گاہے بگاہے‘ صحیح ہوگا، لیکن بہتر ہے کہ گاہے گاہے استعمال کیا جائے جیسے اس مصرع میں ہے ’گاہے گاہے باز خواں ایں دفتر پارینہ را‘۔ دفتر کی جگہ قصہ پارینہ بھی پڑھا ہے، قارئین کو جو پسند آئے۔
’گاہ‘ فارسی کا لفظ ہے اور اردو نظم میں یہ ’گہ‘ بھی استعمال ہوتا ہے۔ مرکبات میں بھی مستعمل ہے جیسے صبح گاہ، سحر گاہ، شام گاہ۔ مکان اور جگہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے شکار گاہ، سجدہ گاہ۔ گاہ کبھی کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے جیسے میرؔ کا شعر ہے
گہ کمر میں تھی لچک، گاہ تھی اعضا میں پھڑک
گہ جواں گاہے پیر، گہ دم کودک (کودک بچے کو کہتے ہیں)
فارسی میں گاہ بگاہ بھی استعمال ہوا ہے یعنی وقت بے وقت۔ گاہے گاہے کو گاہے ماہے بھی لکھا جاتا ہے یعنی کبھی کبھی۔
پِتّا ہندی کا لفظ اور مذکر ہے۔ اس عضو کو فارسی میں زہرہ کہتے ہیں چنانچہ پِتّا پانی ہونا کی جگہ زہرہ آب ہونا کہا جاتا ہے۔ مطلب اس کا تحمل، تاب، طاقت، حوصلہ، جگر کے علاوہ غصہ، تیزی، جوش کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ پِتّا پِت سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں صفرا۔ صفراوی مزاج آدمی بہت تیز ہوتا ہے اور ہر کام میں عجلت کرتا ہے۔ جلیل مانکپوری کا شعر ہے
چاہت کی جو تلخیاں اٹھائے
پتا پانی ہو آدمی کا
داغ دہلوی کا شعر بھی سنتے (یا پڑھتے) چلیں
اپنا پتا ہم نے مارا دوست کی خاطر سے آج
غصہ آیا تھا بہت دشمن کی صورت دیکھ کر
حاصل یہ کہ پتا کسی کے سراغ کے معنوں میں ہو، برگِ شجر ہو یا پتّا عضوِ جسم ہو، ان سب کے آخر میں الف آتا ہے، ’ہ‘ نہیں۔
ایک بہت جسیم و قدیم کالم نگار ہیں جو بلامبالغہ 60 برس سے لکھ رہے ہیں۔ ان کو پڑھ پڑھ کر ہم نے اردو سیکھی۔ وہ کالم نگاری کی آبرو ہیں اور کالم نگار کی تعریف پر پورا اترتے ہیں، کیونکہ باقی تو مضمون نگار اور مقالہ نگار بن گئے ہیں۔ تاہم کبھی کبھی وہ زبان کی غلطی کرجاتے ہیں حالانکہ ایک بڑے عالمِ دین کے بیٹے ہیں۔
موسمِ گل نہیں آتا ہے اجل آتی ہے
گور سے تنگ ہوا جاتا ہے زنداں مجھ کو
جس کو موت آیا چاہتی ہو اسے بھی اجل رسیدہ کہتے ہیں۔ جلال کا شعر سن لیں
پکارا کوچہ قاتل میں مجھ کو دیکھ کے دل
اجل رسیدہ ارے تُو کہاں نکل آیا
اجل کسی کے سر پر بھی کھیلتی ہے۔ کھیل کے میدان ختم ہوتے جارہے ہیں تو یہی ہوگا۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوا اور بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔
اطہر ہاشمی روزنامہ جسارت کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں سے شعبۂ صحافت سے منسلک ہیں اور زبان و بیان پر گہری گرفت رکھتے ہیں۔