شرکا نے نماز جمعہ جلسے کے لیے مختص گراؤنڈ میں ادا کی—فوٹو:ڈان نیوز
وزیراعظم عمران خان کے وعدوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘انہوں نے کہا تھا ہم 50 لاکھ گھر بنا کر دیں گے، 50 لاکھ گھربنانا تو دور کی بات یہ تو 50 لاکھ سے زائد گھر گرا چکے ہیں اور لوگوں کو بے گھر کردیا گیا ہے، نوجوانوں سے کہا گیا تھا کہ ایک کروڑ نوکریاں دی جائیں گے جبکہ ایک سال کے اندر 20 سے 25 لاکھ نوجوان بے روزگار ہوگئے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان اتنا خوش حال ہوگا کہ لوگ نوکریوں کے لیے باہر سے آئیں گے اور باہر سے صرف دو لوگ آئے ہیں، اسٹیٹ بینک کا گورنر اور ایف بی آر کا چیئرمین نوکریوں کے لیے باہر سے آئے ہیں اور وہ بھی آئی ایم ایف نے بھیجے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘جب پاکستان کی معیشت پر اس طرح کے سانپ بٹھائے جائیں گے جو مغربی معیشت کو خوش حال بنائیں اور پاکستان کی معیشت کو ان کی گروی بنائیں گے تو ہم غلام معیشت کو تسلیم نہیں کرتے’۔
معیشت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘جب پاکستان کی بنیاد بنی تھی تو اسٹیٹ بینک کا افتتاحی جلسہ ہورہا تھا تو قائد اعظم نے کہا تھا کہ مغربی معیشت نے سوائے جنگوں، فسادات اور تباہیوں کے کچھ نہیں دیا ہے، ہمیں چاہیے کہ قرآن و سنت کے مطابق پاکستان میں معاشی نظام چاہیں گے’۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘آج قائد اعظم کی روح تم سے پوچھ رہی ہے کہ کہاں ہے وہ معیشت کہ جس کے تصور پر میں نے پاکستان بنایا تھا اور آج تم نے میرے پاکستان کو غلام بنادیا ہے’۔
قائد اعظم کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘1940 میں قرار داد پاس ہورہی تھی اس میں قائد اعظم نے صرف پاکستان کا تصور پیش نہیں کیا تھا بلکہ کہا تھا کہ فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی بستیاں ناجائز ہیں اور ہم بھی فلسطینیوں کے شانہ بشانہ ان کے حقوق کی جنگ لڑیں گے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ قائد اعظم کی فلسطینیوں سے کمٹمنٹ تھی اور جب 1948 میں اسرائیلی ریاست وجود میں آئی تواس کے وزیراعظم نے اسرائیل کی پہلی خارجہ پالیسی کے اصول میں کہا کہ ایک نوزائیدہ پاکستان کا خاتمہ ہمارا بنیادی اصول ہوگا’۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘پھر پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں، یہ کون سا قائد اعظم کا پاکستان تشکیل دے رہے ہیں، تم نے کیوں پاکستان کے تصورات کو تبدیل کیا ہے، قوم پوچھنا چاہتی ہے کہ ان حقائق کو عوام کے سامنے کیوں نہیں لارہے کہ تم نے پاکستان کی بنیاد کن باتوں پر رکھی ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘عوامی سیلاب اعلان کررہا ہے کہ کوئی مائی کا لعل مستقبل میں پاکستان کی سرزمین پر ناموس رسالت کو نہیں چھیڑ سکے گا، یہ عظیم الشان اجتماع اس بات کا اعلان کررہا ہے کہ مستقبل میں کوئی پاکستان کے آئین کے عقیدہ ختم نبوت کو نہیں چھیڑ سکے گا’۔
'مذہبی کارڈ' مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘کہتے ہیں یہ مذہبی کارڈ استعمال کررہے ہیں، مذہبی کارڈ اگر آئین کا مسئلہ ہے اور آئین اس کا ذکر اور تحفظ کرتا ہے، میں آئین کی بات کرتا ہوں تو تم کون ہوتے ہومجھے پاکستانی آئین کے تحت تحفظ دیے ہوئے اسلامی دفعات کو تحفظ دینے کے لیے بات کرنے سے روکنے والے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘میں کہتا ہوں کہ پاکستان اور مذہب اسلام کو جدا نہیں کیا جاسکتا، اسلام ہے تو پاکستان ہے اور پاکستان ہے تو اسلام ہے’۔
سربراہ جے یوآئی (ف) نے کہا کہ ‘کہا جاتا ہے کہ نواز شریف اور زرداری کرپٹ ہیں اور ہم تو چوروں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، ورلڈ اکنامک کی چند روز پہلے کی رپورٹ پڑھ لیں جس میں کہا گیا ہے کہ کرپشن میں خاتمے کی تو دور کی بات ایک سال کے اندر کرپشن میں دو سے تین فیصد اضافہ ہوا ہے’۔
'میڈیا سے پابندی اٹھالیں' مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘آج پاکستان کے میڈیا پر پابندی ہے کہ دنیا کو پاکستان کے عوام کے ان جذبات سے آگاہ کر سکے، میں میڈیا کے ساتھ کھڑا ہوں اوراپیل کرتا ہوں میڈیا مالکان، اینکرز اور میڈیا پرسنز سے کہ وہ کھل کر آزادی مارچ کا حصہ بنیں اور حکومت کے ان فیصلوں کے خلاف بغاوت کریں’۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘میڈیا سے پابندی اٹھالیں ورنہ ہم بھی کسی پابندی کے پابند نہیں ہوں گے’۔
'عوام کا فیصلہ آچکا حکومت کو جانا ہی جانا ہے' انہوں نے کہا کہ ‘یہ ہماری پرامن صلاحیتوں کا اظہار ہے، ہم پرامن لوگ ہیں اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ امن کے دائرے میں رہیں ورنہ اسلام آباد کے اندر پاکستان کے عوام کا یہ سمندر اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ وزیراعظم کے گھر کے اندر جاکر وزیراعظم کو خود گرفتار کرلیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘عوام کا فیصلہ آچکا ہے اب اس حکومت کو جانا ہی جانا ہے لیکن میں اداروں کے ساتھ بات کرنا چاہتا ہوں، ہماری نپی تلی پالیسی ہے کہ ہم اداروں کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے ہم پاکستان کے اداروں کا استحکام چاہتے ہیں، ہم اداروں کو طاقت ور دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ہم اداروں کو غیر جانب دار بھی دیکھنا چاہتے ہیں’۔
شہباز شریف نے شرکا سے خطاب کیا—اسکرین شاٹ
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘اگر ہم محسوس کریں کہ اس ناجائز حکومت کی پشت پر ہمارے ادارے ہیں، اگر ہم محسوس کریں کہ اگر ان ناجائز حکمرانوں کا تحفظ ہمارے ادارے کر رہے ہیں تو پھر دو دن کی مہلت ہے پھر ہمیں نہ روکا جائے کہ ہم اداروں کے بارے میں اپنی کیا رائے قائم کرتے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ 'آج میرا استاد سڑکوں پر گھسیٹا جارہا ہے، معماران قوم کواسلام آباد کی سڑکوں پر گھسیٹا جارہا ہے، خواتین استانیوں کو چہروں پر تھپڑ مارے جارہے ہیں، سڑکوں اور تھانوں میں ان کی تذلیل کی جارہی ہے، جو قوم کو علم کی زینت سے سنوارتے ہیں آج اسی کی سزا پاکستان میں پارہے ہیں'۔
عوامی احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'آج پشاور کا وہ ڈاکٹر جو لوگوں کے زخم سیتا ہے اس کی مرہم پٹی کرتا ہے خود ڈاکٹروں کے زخم سے خون رس رہا ہے اور سڑک کو رنگین کررہا ہے، ہسپتالوں میں پڑا ہے جہاں لوگ ان سے علاج لینے جاتے ہیں وہاں وہ خود زیر علاج ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ ‘کیا یہ ملک اس لیے بنا تھا کہ ہمارا ڈاکٹر اور ہمارا استاد بھی غیر محفوظ ہو، آج وکیل بھی رورہا ہے وہ بھی میدانوں میں ہے، آج میڈیا کا کارکن بھی رو رہا ہے، کون سا طبقہ ہے جو اس وقت کرب میں مبتلا نہیں’۔
'دو دن کی مہلت ہے استعفیٰ دے دیں' مولانا فضل الرحمٰن نےحکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘اس کرب سے اگر قوم کو نکالنا ہے کہ تو دو دن کی مہلت ہے آپ کے پاس اور آپ استعفیٰ دے دیں ورنہ پھر اگلے دن ہم نے اس سے آگے فیصلے کرنے ہیں، کسی کے ساتھ کوئی کمٹمنٹ نہیں ہے، ہم جس امن کے ساتھ آئے ہیں ہمارے اس امن کا احترام کیا جائے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘قوم کے امن کا احترام کیا جائے، سیاسی جماعتوں کے امن کا احترام کیا جائے، ہم مزید صبر وتحمل کا مظاہرہ نہیں کر سکیں گے’۔
اس موقع پر عوام کے نعروں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘میں نے سن لیا ہے کہ آپ ڈی چوک کی بات کررہے ہیں، صرف میں نے نہیں سنا بلکہ بلاول بھٹو نے بھی سن لیا، محمود اچکزئی نے بھی سن لیا ہے، احسن اقبال اور خواجہ آصف نے بھی سن لیا ہے اوراویس نورانی بھی سن رہا ہے’۔
‘آپ ڈی چوک کی بات کررہے ہیں ہم سب نے نوٹ کرلیا ہے، نواز شریف اور آصف زرداری نے بھی یہ بات سن لی ہے اور ہم جن کو سنانا چاہتے ہیں وہ بھی سن لیں’۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘میں تین دن کی بات اس لیے کررہا ہوں کہ تین دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی غار میں پناہ لی تھی، تین دن کی مہلت سنت کی بھی نسبت ہے’۔
اپنے خطاب کے آخر میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا شکریہ ادا کیا اور جیلوں میں موجود سیاسی قیادت کی صحت یابی کے لیے دعا کی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے عوام سے پوچھا کہ ‘کیا آپ استعفے مانگتے ہو یا نہیں، استعفے سے کم پر راضی ہو کہ نہیں اگر استعفے سے کم پر راضی ہوتو مجھے بتادیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اساتذہ کے مطالبات ہوں، تاجروں یا ڈاکٹروں کے مطالبات ہوں، حکومت اپنے فیصلے واپس لے اور ہمارے ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے سب کے مطالبات کو تسلیم کیا جائے’۔
انہوں نے گزشتہ روز رحیم یار خان میں پیش آنے والے ریل حادثے کے متاثرین کے لیے بھی دعا کی اور مطالبہ کیا کہ اس حادثے کی اعلیٰ سطح کی اور عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے کہ یہ حادثہ ہے یا دہشت گردی ہے، ریلوے سے پوچھا جائے کہ کیا کمزوری ہے اور ایسی کوتاہی کیوں کی۔
اپنے خطاب کے آخر میں انہوں نے کہا کہ ‘میرے دوستو! آپ اس میدان میں استقامت کے ساتھ اس میدان میں جمے رہیں اور دو دن کے اندر ان سے استعفیٰ لینا ہے اور اگر نہیں دیا توہم نے مل کر ایک فیصلہ کرنا ہے، اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے ہم نہیں کرنا، آپ عوام ہیں، ووٹ آپ کی امانت ہے، ووٹ آپ کی ملکیت ہے، آپ کی امانت پر ڈاکا ڈالا گیا ہے لہٰذا اپنے ووٹ کے بارے میں فیصلے آپ کو کرنے ہیں’۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘ہم تمام سیاسی رہنماؤں سے رابطے میں ہیں، رہبر کمیٹی بھی موجود ہے، لمحہ بہ لمحہ صورت حال پر ہماری نظر ہے، مشاورت سے تجاویز طے کی جائیں گی اور آپ کے سامنے پیش کی جائیں گی’۔
یاد رہے کہ آزادی مارچ کا آغاز 27 مارچ کو کراچی سے ہوا تھا جو سندھ کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا لاہور اور پھر گوجر خان پہنچا تھا اور گزشتہ روز راولپنڈی سے ہوتا ہوا اسلام آباد میں داخل ہوا تھا۔
آزادی مارچ کے شرکا اسلام آباد کے ایچ- 9 میٹرو گراؤنڈ میں موجود ہیں، نمازِ جمعہ کے بعد جلسے کا باقاعدہ آغاز ہوا جبکہ جلسے سے قبل شرکا نے اپنے لیے کھانا بھی تیار کیا۔