آزادی مارچ کے پیش نظر اسلام آباد میں فوج طلب
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچنے کے پیشِ نظر جہاں وزیراعظم عمران خان نے ممکنہ اشتعال انگیزی سے نمٹنے کے لیے اپنی جماعت کے سینئر اراکین سے مشاورت کی تو وہیں مقامی انتظامیہ نے امن و عامہ کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے فوج کو طلب کرلیا۔
خیال رہے کہ اتوار 27 اکتوبر کو کراچی سے شروع ہونے والا آزادی مارچ بدھ 30 اکتوبر کو لاہور پہنچا تھا اور توقع ہے کہ گوجر خان میں مختصر قیام کے بعد یہ جمعرات 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوگا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارٹی رہنماؤں کے اجلاس میں شریک ایک شخصیت سے ڈان کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وزیراعظم، اسلام آباد کے پشاور موڑ پر متوقع احتجاج کے حوالے سے مطمئن نظر آئے اور انہوں نے پنجاب میں آزادی مارچ کی صورتحال کو ’انتہائی بری‘ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: جے یو آئی (ف) کا آزادی مارچ لاہور سے راولپنڈی کی طرف رواں دواں
تاہم حکومت نے کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے حساس مقامات پر فوج تعینات کردی ہے۔
علاوہ ازیں اسلام آباد کی مقامی انتظامیہ نے حساس ترین علاقے ریڈ زون میں ٹرپل ون بریگیڈ کو تعینات کرنے کی بھی درخواست دے دی ہے۔
واضح رہے کہ ریڈ زون میں پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ، دفتر خارجہ، پاکستان ٹیلی ویژن، ریڈیو پاکستان اور ڈپلومیٹک انکلیو موجود ہے۔
اس کے ساتھ انتطامیہ نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وفاقی دارالحکومت کی تین بڑی شاہراہیں اسلام آباد ایکسپریس وے، کشمیر ہائی وے اور 9 ایونیو صبح 11 بجے سے شام 5 بجے تک بند رہیں گی، اس کی جگہ متبادل راستوں سے ٹریفک کو گزرنے کی اجازت ہوگی۔
اجلاس کے بارے میں ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن پہلے ہی دو بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حمایت سے محروم ہوچکے ہیں۔
مزید پڑھیں: آزادی مارچ: پشاور ہائی کورٹ کا صوبائی حکومت کو شاہراہیں بند نہ کرنے کا حکم
وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہونے کے باوجود نہ اس کے صدر میاں شہباز شریف اور نہ ہی کوئی اور رہنما آزادی مارچ کے لیے لاہور میں قیام کے دوران اس میں شامل ہوا۔
اس ضمن میں جب وزیراعظم کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے پارٹی رہنماؤں کے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ اپوزیشن کی اشتعال انگیزی سے نمٹنے کے لیے حکومت کے سیکیورٹی پلان پر پوری طرح عمل کیا جائے گا۔
دوسری جانب وزیراعظم نے وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو ہدایت کی کہ عوام کو حکومت کی حکمت عملی سے آگاہ کرنے کے لیے پریس کانفرنس کریں۔
یہ بھی پڑھیں: 'حکومت کیسے بتا سکتی تھی نواز شریف کی صحت ٹھیک رہے گی یا نہیں؟'
اس کے ساتھ وزیراعظم نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف تضحیک آمیز بیانات دینے سے بھی روک دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس کے مطابق ان کی حالت تشویشناک ہے لہٰذا ان کے خلاف ریمارکس دینا نامناسب ہوگا۔