ایسا لگتا ہے کہ بغدادی بھی ٹرمپ کی خاص مدد نہیں کرسکا


صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو آپے سے باہر نکلے جا رہے تھے۔ 26 اکتوبر بروز ہفتے کی شام کو ان سے رہا نہیں گیا اور ٹوئٹر پر اشارہ دے دیا کہ ’ابھی ابھی ایک غیرمعمولی واقعہ وقوع پذیر ہوا ہے!‘ انہوں نے شش و پنج میں ڈال دینے والے ٹوئیٹ کے ذریعے لوگوں کو حیران کرنے کی کوشش کی۔
لیکن یہ عین ممکن ہے کہ اکثر امریکیوں نے ان کی بات پر زیادہ توجہ ہی نہیں دی ہوگی کیونکہ وہ اپنے کمانڈر ان چیف کی جانب سے ہر روز بلکہ ہر گھنٹے بعد کہی جانے والی بے تحاشا بے معنی و بے مقصد باتوں کے عادی سے بن چکے ہوں گے۔
تو جناب وہ ’بڑا واقعہ‘ دراصل شمالی شام کے شہر ادلب میں واقع ایک کمپاؤنڈ پر یونائیٹڈ اسٹیٹ ڈیلٹا فورس کی جانب سے کی جانے والی ریڈ تھی۔
جب صدر ٹرمپ اس واقعے کے حوالے سے باضابطہ خطاب کرنے آئے تب تک اتوار کی صبح کا سورج طلوع ہوچکا تھا۔ حسبِ توقع، انہوں نے بڑھا چڑھا کر پیش کی جانے والی فضول باتوں پر مبنی خطاب کیا۔ صدر نے کہا کہ خود ساختہ ’دولت اسلامیہ‘ کے رہنما کو بزدلی کی موت نصیب ہوئی ہے اور وہ مرنے سے قبل ’رو رہا تھا اور سسکیاں لے رہا تھا۔‘
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ دیگر صدور پر خود کو برتر قرار دینا ویسے ہی ان کی ہر پریس کانفرنس کا لازمی جزو ہوا کرتا ہے۔ ٹرمپ کے مطابق اسامہ بن لادن کو مارنے کے لیے کی جانی والی ریڈ اور آپریشن سے زیادہ اہمیت کی حامل حالیہ ریڈ ہے۔
ریڈ کے ابتدائی گھنٹوں بعد یوں محسوس ہوا جیسے جس آپریشن میں ابوبکر البغدادی کی موت ہوئی اس نے ڈونلڈ ٹرمپ کو بچالیا ہے۔ ایک طرف مواخذے کی تحقیقات جاری ہے تو دوسری طرف یوکرین کے ساتھ خفیہ روابط سے متعلق شواہد منظر عام پر آرہے ہیں، جس کی وجہ سے شدید دباؤ کے شکار ٹرمپ کو کوئی معجزہ درکار تھا، ایسا معجزہ جو ان کے لیے آسانی پیدا کرسکے۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ ٹرمپ نے اپنے انتخابی حریف جو بائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کے خلاف تحقیقات کرنے کے لیے یوکرین کو مبیّنہ طور پر درخواست کی تھی۔
شام میں ہونے والی ریڈ جس میں ’سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد‘ کو مار دیا گیا ہے، دراصل ایک ایسا واقعہ نظر آتا ہے جو دوسری بار حکومت دلانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے، (ٹھیک ویسے ہی جیسے اسامہ بن لادن کی ہلاکت اوباما کے لیے مددگار ثابت ہوئی تھی۔)
یوں لگا جیسے اسی مقصد کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس واقعے کی تشہیر کا اہتمام کیا گیا۔ اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر ریڈ کے بعد کچھ تصاویر منظرِ عام آئیں تھیں جس میں صدر، اسٹیٹ سیکریٹری ہلیری کلنٹن اور دیگر کو جمگھٹے کی صورت میں ریڈ کی کارروائی براہِ راست دیکھتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
بغدادی کے خلاف حالیہ ریڈ کے بعد بھی منظرِ عام پر آنے والی تصاویر میں ٹرمپ عالیشان کانفرنس میز پر اپنے مشیران اور وزرا کے ساتھ ممکنہ طور پر ریڈ کی براہِ راست کارروائی دیکھتے ہوئے نظر آئے۔
حالانکہ حالیہ واقعے میں سیاسی فتح دلانے کے تمام اجزا موجود تھے لیکن اس کے باوجود بغدادی کی ہلاکت کا واقعہ بے اثر سا محسوس ہوتا ہے، یہ واقعہ لوگوں میں مطلوبہ ترغیب پیدا ہی نہیں کرسکا۔
جس کا ثبوت اسی دن شام کو مل گیا۔ اتوار کی رات کو صدر ٹرمپ اور خاتون اوّل میلانیا ٹرمپ نے بیس بال کی ورلڈ سیریز میں شرکت کی۔ ڈی سی کی مقامی ٹیم واشنگٹن نیشنلز کا مقابلہ ہیوسٹن ایسٹروز سے تھا۔ میدان میں تقریباً 50 ہزار افراد موجود تھے اور پھر تیسری اننگ کے اختتام پر جب ٹرمپ کو متعارف کروایا گیا تو پورے اسٹیڈیم نے ان پر آوازیں کسنا شروع کردیں۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ آواز کسنے کے بعد ’اس آدمی کو جیل میں بند کرو!‘ کے نعرے بھی بلند کیے گئے، ٹھیک ویسے ہی جیسے ٹرمپ کی ریلیوں میں ان کے چاہنے والے ہلیری کلنٹن کے لیے اس طرح کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ یوں محسوس ہوا جیسے پورا اسٹیڈیم تمام امریکیوں کی نمائندگی کر رہا ہے، چاہے انہوں نے بغدادی یا کسی دوسرے کو پکڑا ہو یا نہ پکڑا ہو اس سے قطع نظر لوگوں میں ٹرمپ کی ناپسندیدگی اور نفرت میں کوئی فرق نہیں آیا۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@