فلم ڈائریکٹر منصور مجاہد کو دوست کے ‘قتل’ پر عمر قید
کراچی کی ماڈل کورٹ کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے فلم ڈائریکٹر منصور مجاہد اور خاتون عناب حمید کو جون 2013 میں اپنے دوست فیصل نبی کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید سناتے ہوئے جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔
کراچی کی ماڈل کرمنل ٹرائل کورٹ (جنوبی) کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کامران عطا سومرو نے جون 2013 میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں ایک اپارٹمنٹ میں قتل ہونے والے فیصل نبی کے مقدمے کی سماعت کی اور زیر حراست ملزمان منصور مجاہد اور عناب حمید کو مجرم ٹھہراتے ہوئے سزا سنادی۔
جج نے دونوں ملزمان کو عمر قید کے ساتھ ساتھ مقتول کے لواحقین کو 2 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کامران عطا سومرو نے فیصلے میں ملزمان کو گرفتار کرکے سزا مکمل کرنے کے لیے جیل بھیجنے کا حکم دیا جبکہ مفرور ملزمہ معصومہ عابدی کے خلاف مقدمے کو ان کی گرفتاری یا خود کو عدالت کے حوالے کرنے تک ملتوی کر دیا۔
مزید پڑھیں:طالبہ قتل کیس، پولیس مقابلے میں گرفتار ڈکیت کو 27 سال قید
پراسیکوشن کے مطابق منصور مجاہد اور ان کے دوست نے عناب حمید کے اپارٹمنٹ میں منشیات کا استعمال کیا تھا اور اسی دوران دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور فلم ڈائریکٹر نے مبینہ طور پر اپنے دوست کو قتل کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ منصور مجاہد نے خاتون کے ساتھ مل کر اپنے مشترکہ مفاد کی خاطر اور مشاورت سے مقتول پر غیر لائسنس یافتہ اسلحے سے فائرنگ کی اور ان کی لاش کو تشدد اور جلا کر مسخ کرنے کے بعد اپارٹمنٹ کی پارکنگ میں دفنا دیا۔
پراسیکیوٹر کا مزید کہا تھا کہ انکوائری افسر نے مقتول کے رشتہ داروں کے ہمراہ ملزم سے سوالات کیے تو منصور نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنے دوست پر دو گولیاں برسائیں جبکہ عناب حمید نے کہا کہ انہوں نے چھری کے وار کیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:کراچی: کمسن بچی کو اغوا کے بعد قتل کرنے والے کو عمر قید
ان کا کہنا تھا کہ ملزمان پولیس کو اس جگہ لے کر گئے جہاں لاش، پستول، چھری، خون لگی چادریں اور تکیہ موجود تھا۔
عدالت سے سزا پانے والے فلم ڈائریکٹر اور خاتون کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ عناب حمید نے تفتیش کے دوران مزید انکشاف کیا کہ مقتول نے اس واقعے سے چند روز قبل ان پر تشدد کیا تھا اور انہوں نے اپنی ڈائری میں تحریر کیا تھا جس کو منصور نے پڑھا تھا۔
کلفٹن پولیس اسٹیشن میں مقتول کے بھائی کی مدعیت میں ملزمان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی اقدام قتل اور مشترکہ مفاد کی شق 302 اور 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔