نقطہ نظر

خیوا، وسطی ایشیا کے ماتھے کا جھومر

یہاں کے ایوان، دربار اور چوبارے بھرپور شاہی نظارہ پیش کرتے ہیں اور منتظمین نے آج بھی ان کو اچھے انداز سے سنبھال رکھا ہے۔

خیوا، وسطی ایشیا کے ماتھے کا جھومر

احمد شاہین

’آپ بھلے ہی ازبکستان کے نام اور جغرافیہ سے مانوس نہ ہوں، لیکن آپ ضرور کسی نہ کسی بہانے روزانہ اس ملک کے مختلف حصوں سے مناسبت رکھنے والی شخصیات، علوم، تاریخ اور ایجادات کو یاد کرتے ہوں گے، ویلکم ٹو ازبکستان!‘

یہ وہ اولین الفاظ تھے جو لندن سے تاشقند ساڑھے 7 گھنٹے طویل فلائٹ اور امیگریشن افسر کے ساتھ کچھ دیر سر کھپانے کے بعد، ہمارے استقبال کے لیے آنے والے میزبان سے سننے کو ملے۔

طویل القامت اور ہر وقت مسکرانے والے فرہاد، ازبکستان کی وزارتِ سیاحت کے ساتھ منسلک ہیں اور انہی کی وزارت کی دعوت پر لندن سے ہم کچھ دوست یہاں پہنچے تھے۔

ائیرپورٹ سے اپنا سامان وصول کرکے سیدھا ہوٹل پہنچ کر آرام کرنے کا فیصلہ ہوا تاکہ تازہ دم ہوکر شہر کا نظارہ کیا جاسکے۔ اسی اثنا میں میزبانوں کی جانب سے یہ اطلاع دی گئی کہ پروگرام کے مطابق ہمیں کل صبح کی فلائٹ سے ’خیوا‘ کے لیے روانہ ہونا ہے اور ازبکستان کے باقاعدہ ’دورے‘ کا آغاز بھی وہیں سے ہوگا۔ چنانچہ باقی کا دن ہم نے آرام کیا، ازبک کھانوں پر ہاتھ صاف کیا اور جو وقت بچ گیا وہ ہوٹل کے قریب ہی چہل قدمی کرتے گزار دیا۔

پھر اگلے دن علی الصبح، خیوا کے لیے روانہ ہوگئے۔

تاشقند سے خیوا کا فاصلہ تقریباً 800 کلومیٹر کا ہے۔ حال ہی میں شروع کی جانے والی ’فاسٹ‘ ٹرین کے ذریعے یہ فاصلہ تقریباً 15 گھنٹوں میں طے کیا جاسکتا ہے جبکہ بذریعہ ہوائی جہاز جانے کے لیے پہلے ازبکستان کے ’خوارزم‘ ریجن کے صدر مقام ’اڑگنچ‘ تک ڈیڑھ گھنٹے کی فلائٹ لینا پڑتی ہے اور پھر تقریباً ایک گھنٹہ زمینی سفر طے کرکے وہاں پہنچا جاسکتا ہے۔

خیوا

خیوا ماضی کی معروف اور تاریخی ’سلطنت خوارزم‘ کا صدر مقام تھا۔ یہ سلطنت 10ویں صدی میں قائم ہوئی اور اس میں موجودہ ترکمانستان، ایران، ازبکستان اور قزاقستان کے علاقے شامل تھے۔ اسی سلطنت کے آخری حکمران خوارزم شاہ جلال الدین تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے چنگیز خان کو اس کی زندگی کی پہلی اور آخری شکست دی اور چنگیز خان اپنی وفات تک جلال الدین کی ہمت و شجاعت کا معترف رہا۔

معروف محقق اور سائنسدان البیرونی اور دنیا کو الجبرا کا تحفہ دینے والے الخوارزمی بھی اسی خطہ زمین سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی سرزمین بلکہ مسلمانوں کا نام بھی دنیا بھر میں روشن کیا۔

خیوا آج بھی بارونق، خوبصورت اور اپنے اندر ایک طلسم لیے ہوئے ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ یہاں آئیں اور یہاں موجود مناظر میں حقیقتاً کھو نہ جائیں۔ ویسے تو یہ جملہ ہر دوسرے سیاحتی مقام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن خیوا، خصوصاً اس کے قدیم حصے کو اس لیے ممتاز حیثیت حاصل ہے کہ یہاں پھرتے ہوئے انسان خود کو تاریخ پر بنی کسی فلم کے سیٹ کا حصہ تصور کرتا ہے اور اس کے اردگرد، صدیوں پرانی عمارات، تہذیب، ثقافت، حتیٰ کہ لوگ بھی چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ وہی قدیم لباس، ویسی ہی پرانی وضع قطع اور تاریخی جاہ و جلال سے بھرپور تعمیرات، پھر بھلا انسان کیوں نہ خود کو مارکوپولو یا ابن بطوطہ سمجھے!

خیوا ماضی کی معروف اور تاریخی ’سلطنت خوارزم‘ کا صدر مقام تھا

خیوا میں واقع ایک پرانی عمارت

خیوا پہنچنے اور ہوٹل میں سامان رکھنے کے فوراً بعد ہم شہر کی سیر کو نکل کھڑے ہوئے تاکہ دن کی روشنی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فوٹوگرافی اور فلمنگ کرلی جائے۔ گائیڈز کے ہمراہ سب سے پہلے قدیمی شہر دیکھنے کا فیصلہ ہوا۔ چاروں طرف سے مضبوط اور طویل فصیل میں قید خیوا کا یہ حصہ اچن قلعہ کہلاتا ہے، یعنی قلعہ میں بسا شہر۔ خیوا سے متعلق تقریباً تمام اہم عمارتیں اسی قلعے کی حدود میں واقع ہیں۔

اچن قلعہ خیوا شہر کا سب سے قدیم علاقہ ہے اور اس علاقے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پورے وسطی ایشیا میں اس جگہ کو سب سے پہلے یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج لسٹ میں شامل کیا گیا۔

پرانے خیوا کو جغرافیائی لحاظ سے اچھی طرح سمجھنے کے لیے ’کونیا آرک‘ کی چھت سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ کونیا آرک نامی یہ محل یا شاہی رہائش گاہ اچن قلعے ہی میں 17ویں صدی میں تعمیر کی گئی۔ اس کی چھت سے فصیل میں موجود خیوا کا پرانا شہر، اس کی پرشکوہ عمارتیں، قابلِ رشک مینار اور یہاں کے قدیم محلے بھی بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں۔

خیوا آج بھی بارونق، خوبصورت اور اپنے اندر ایک طلسم لیے ہوئے ہے

خیوا کی ایک راہ گزر

ہم چھت سے پورے شہر پر نظر دوڑا کر نیچے اترے اور محل کے مختلف حصوں کا جائزہ لیا۔ خانان خیوہ کے زیرِ استعمال رہنے والے اس محل میں پھرتے ہوئے یقیناً تاریخ کے ان لمحات کا خیال آتا ہے جب یہ محل اپنی پوری آب و تاب اور جاہ و جلال کے ساتھ یہاں کے حکمرانوں کے استعمال میں تھا اور عوام ہی نہیں بلکہ اقوام کی قسمت کا فیصلہ بھی یہاں بیٹھ کر کیا جاتا تھا۔

یہاں کے ایوان، دربار، چوبارے اور حرم، ایک مکمل اور بھرپور شاہی نظارہ پیش کرتے ہیں اور منتظمین نے آج بھی ان کو اچھے انداز سے سنبھال رکھا ہے۔ محل میں رہائشی کمروں کے علاوہ شاہی دربار، ملاقات کے دالان، گرمیوں اور سردیوں کے دنوں کے لیے الگ الگ مساجد اور ایک ٹکسال موجود ہے۔ یہ تمام تعمیرات اپنی مثال آپ ہیں، خصوصاً موسمِ گرما میں زیرِاستعمال رہنے والی ہوا دار مسجد دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے جسے گہرے نیلے، سبز اور سرخ رنگ کے نقش و نگار سے سجایا گیا ہے۔ موسم سرما کی مسجد کو اب میوزیم کی شکل دے دی گئی ہے اور یہاں محل کے مختلف حصوں میں استعمال ہونے والی پرانی اشیا کو جمع کیا گیا ہے۔

شاہی دربار

فصیل سے شہر کا نظارہ

موسمِ گرما میں زیرِاستعمال رہنے والی ہوا دار مسجد کو گہرے نیلے، سبز اور سرخ رنگ کے نقش و نگار سے سجایا گیا ہے

کسی بھی شاہی محل کا تذکرہ وہاں سجنے والے دربار کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ دربار کہ جہاں حاکمِ وقت جلوہ افروز ہوتے اور امورِ سلطنت انجام دیتے۔

خیوا آنے والے سیاحوں کو یہاں کی ثقافت، روایات اور سنہری دور سے روشناس کروانے کے لیے منتظمین کی جانب سے محل میں شاہی دربار بھی سجایا جاتا ہے، جہاں اسٹیج پلے کے ذریعے شاہی دور اور اس وقت کی دربار کی منظرنگاری کی جاتی ہے۔ زرق برق لباس پہنے درباری، حسین لیکن بارعب نوجوان بادشاہ کے سامنے مودب کھڑے اپنی زبان میں کچھ عرض کررہے تھے اور بادشاہ، بادشاہوں ہی کی طرح تقریر نما انداز میں ان کی گزارشات پر اپنے فرامین جاری کررہا تھا۔

اگرچہ مکالمے تو سمجھ میں نہیں آئے لیکن شاہی ماحول کا رعب و دبدبہ بہرحال محسوس ہورہا تھا۔ پھر بادشاہ سلامت امورِ سلطنت سرانجام دیتے دیتے تھک گئے تو ان کی طبعیت بحال کرنے فوراً شاہی موسیقار حاضر ہوگئے اور دربار، پرسوز سروں سے گونجنے لگا اور پھر ہر شاہی محل کا لازمی جزو، یعنی شاہی رقاصہ کی بھی اینٹری ہوئی اور یوں محل اور دربار کے سربستہ راز، یہاں آنے والے سیاحوں کے سامنے طشت از بام ہوئے اور خوب تالیاں پیٹی گئیں۔

اسٹیج پلے کے ذریعے شاہی دور اور اس دور کی دربار کی سرگرمیوں کو دکھایا جاتا ہے

گزرے وقتوں میں شاہی موسیقار بھی کچھ اسی طرح اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوں گے

ہمیں پورے اسٹیج ڈرامے میں اگر کچھ سمجھ آیا تو وہ یقیناً یہی رقص تھا، کیونکہ رقص سمجھنے کے لیے زبان کی قید نہیں۔

کونیا آرک سے باہر نکل کر سب سے پہلی نظر جس چیز پر پڑتی ہے وہ ’کلتا مینار‘ ہے۔ نیلے رنگ کی دیدہ زیب ٹائلوں سے سجے اس خوبصورت مینار کی تعمیر کا آغاز 1851ء میں امین خان نے کیا۔ یہاں کی مقامی روایات کے مطابق وہ اس مینار کو اتنا اونچا بنانا چاہتا تھا کہ یہاں سے بخارہ شہر کو دیکھ سکے لیکن وقت نے وفا نہ کی اور وہ 1855 میں وفات پاگیا۔ اس کے بعد غالبا کسی نے مینار کی مزید تعمیر میں دلچسپی نہ لی لیکن آج بھی یہ مینار، خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔

ہمیں پورے اسٹیج ڈرامے میں اگر کچھ سمجھ آیا تو وہ یقیناً یہی رقص تھا، کیونکہ رقص سمجھنے کے لیے زبان کی قید نہیں

امین خان اپنے نام سے ایسا مدرسہ اور مینار قائم کرنا چاہتا تھا جو رہتی دنیا تک نہ صرف قائم رہیں بلکہ اس کا نام بھی روشن رکھیں۔ مدرسہ تو قائم ہوا اور اسے وسطی ایشیا کا بڑا اور نامور مدرسہ رہنے کا شرف بھی حاصل ہوا لیکن مینار سے متعلق امین خان کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔

مینار سے خیوا کے بازار کا بھی آغاز ہوتا ہے، جہاں مختلف اشیا کی خرید و فروخت کے لیے چھوٹے چھوٹے اسٹالز لگائے گئے ہیں۔ خیوا کی ہاتھ سے بنی اشیا نہایت مقبول ہیں۔ یہاں سجاوٹ اور گھریلو استعمال کے لیے ہاتھ سے بنی دیدہ زیب چیزیں دستیاب تھیں اور یہاں آنے والے ان میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ ہم نے بھی خیوا کی یاد اپنے ساتھ رکھنے کے لیے کچھ سوینئرز خرید لیے۔

مینار سے خیوا کے بازار کا بھی آغاز ہوتا ہے، جہاں مختلف اشیا کی خرید و فروخت کے لیے چھوٹے چھوٹے اسٹالز لگائے گئے ہیں

ازبکستان میں عموماً چیزوں کی قیمت عددی اعتبار سے تو زیادہ محسوس ہوتی ہے لیکن کرنسی نہایت کمزور ہونے کے سبب جب آپ اسے اپنی مقامی کرنسی میں منتقل کریں تو قیمت کم معلوم ہوتی ہے۔ پینے کے پانی کی ایک بوتل سیاحتی مقامات پر عموماً 5 ہزار سوم (ازبک کرنسی) اور عام رہائشی علاقوں میں 3 ہزار سوم کی ملتی ہے، اسے برطانوی پاؤنڈ کے حساب سے سمجھیں تو ایک پاونڈ میں باآسانی 4 بوتلیں خریدی جاسکتی ہیں جبکہ لندن میں عموماً ایک پاونڈ میں ایک ہی پانی کی بوتل نصیب ہوتی ہے۔

یہاں اور ازبکستان کے دیگر سیاحتی مقامات پر سجے اسٹالز میں ایک دلچسپ مشاہدہ یہ تھا کہ یہاں کے 90 فیصد اسٹالز عموماً خواتین اور نوجوان لڑکیوں نے لگا رکھے تھے اور وہ بلاجھجھک سیاحوں اور مقامی خریداروں سے لین دین میں مصروف تھیں۔ خواتین کی خوداعتمادی اور بااختیار ہونے کا یہ مظاہرہ اچھا لگا۔

ہاتھ سے بنی دیدہ زیب اشیا

بازار میں دستیاب شطرنج

مارکیٹ سے ہوتے ہوئے خیوا میں دیکھنے کے لائق ایک اور خوبصورت عمارت، ’پہلوان محمود‘ کے مقبرے تک پہنچے۔ یہ مقبرہ خیوا سے تعلق رکھنے والے شاعر، فلسفی اور پہلوان، محمود کی یاد میں تعمیر کیا گیا ہے۔ منفرد اور دیدہ زیب ٹائلوں کی وجہ سے یہ شہر کا ایک خوبصورت مقام شمار کیا جاتا ہے۔ محمود کے مقبرے کے علاوہ یہاں اس کے خاندان کے افراد اور معززین علاقہ کی قبور بھی موجود ہیں۔

روایات کے مطابق پہلوان محمود ایک بہادر اور جری شخص تھے۔ وہ پہلوانی کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کیا کرتے جس نے انہیں نہ صرف خیوہ بلکہ سلطنت خوارزم کا ایک اہم نام بنا دیا۔ محمود کی وفات 1322ء یا 1325ء میں ہوئی اور اسے اس کے کارخانے ہی میں دفن کردیا گیا لیکن پھر 1701ء میں مقامی افراد نے یہاں مقبرہ تعمیر کیا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہاں مزید توسیع اور تزین و آرائش کی جاتی رہی۔

خیوا قیام کے پہلے دن رات کے کھانے کا اہتمام میزبانوں کی جانب سے ایک مقامی ‘ہوم گیسٹ ہاؤس‘ میں کیا گیا تھا۔ ازبکستان میں سیاحت کو پروان چڑھانے اور یہاں آنے والے سیاحوں کو مقامی روایات سے بھرپور روشناس کروانے کے لیے، یہاں کے رہائشیوں میں ہوم گیسٹ ہاؤس کا تصور تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ اس سے نہ صرف سیاحوں کو گھر سے دُور گھر جیسا ماحول دستیاب ہوتا ہے بلکہ مقامی افراد کے ساتھ رہنے کی وجہ سے وہ مقامی کلچر، کھانوں اور رہن سہن سے بھی اچھی طرح واقف ہوجاتے ہیں۔

پہلوان محمود کا مقبرہ

اس قدیم شہر میں سیاحوں کی بہتات نظر آتی ہے

ہوم گیسٹ ہاؤس کے ذریعے سیاحوں کو گھر سے دُور گھر جیسا ماحول دستیاب ہوتا ہے

ہمارا قیام تو اگرچہ ہوٹل ہی میں تھا لیکن مقامی افراد سے ملاقات اور خیوا کے گھر اور رہن سہن کو قریب سے دیکھنے کے لیے عشائیے کا اہتمام ایسی ہی ایک فیملی کے ساتھ کیا گیا تھا۔ ازبک لوگ مہمان نواز ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ملنسار محسوس ہوئے۔ کھانا بنانے میں ہاتھ بٹانے کے لیے ہمسایوں میں سے بھی کچھ خواتین موجود تھیں اور ان کے بچے بھی بلا جھجھک آ جا رہے تھے، یہی وجہ ہے کہ اجازت لینے تک ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ خاتون خانہ کے اپنے بچے کون سے اور کتنے تھے، البتہ یہاں ملنے والے تمام مرد، خواتین اور بچے نہایت احترام اور اپنائیت کے جذبات لیے ملے۔

ازبک لوگ کھانے کے واقعی شوقین ہیں۔ کھانے کے وقت ان کی توجہ صرف اور صرف کھانے پر ہوتی ہے۔ یہاں عمومی طور پر کھانے کے 5 دور (کورس) چلتے ہیں۔

عموماً اس سب میں اتنا وقت تو صَرف ہو ہی جاتا ہے کہ کچھ ہی دیر بعد میزبان پھر سے آپ کو اگلے کھانے کا وقت ہونے کی نوید سناتے ہیں۔ ڈنر میں عموماً پلاؤ لازمی جزو تصور کیا جاتا ہے جبکہ دوپہر کو سوپ جسے مقامی زبان میں ’شوربا‘ کہا جاتا ہے، ضرور پیش کیا جاتا ہے۔ ازبکستان کے پھل لاجواب ہیں۔ کھانے کے بعد عام طور پر خربوزہ اور تربوز پیش کیے جاتے ہیں اور بلامبالغہ یہ دونوں اتنے شیریں ہوتے ہیں کہ پیٹ بھرا ہونے کے باوجود ہاتھ روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔

ازبک پلاو

خیوا میں ہمارا قیام 2 روز کا تھا اور اگلے دن جمعہ تھا۔ گزشتہ روز ہی ہم اچن قلعے میں ایک قدیم لیکن کشادہ مسجد دیکھ چکے تھے اور خیال یہی تھا کہ جمعے کی نماز یہاں ادا کرلیں گے۔ تاہم وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ تاریخی مقام ہونے کے باعث یہاں نماز کی اجازت نہیں اور نماز کے لیے پرانے شہر کی فصیل سے باہر نکل کر ایک اور مسجد موجود ہے جہاں جمعہ اور دیگر نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ اس قدیمی مسجد کا نام ہی ’مسجدِ جمعہ‘ تھا جہاں اب نماز ادا نہیں کی جاسکتی۔

سادہ لیکن منفرد طرزِ تعمیر کی حامل اس مسجد میں پرانے وقتوں میں لوگ جمعہ کے دن کے اجتماع اور نماز کے لیے جمع ہوتے تھے۔ مسجد کے مرکزی ہال میں 200 سے زائد لکڑی کے ستون موجود ہیں جن کی اونچائی 4 سے 5 میٹر ہے۔ اس مسجد میں کچھ ستون 10ویں صدی سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ بہرحال ہم بھاگم بھاگ اچن قلعے کی فصیل سے باہر نکلے جہاں خطبہ شروع ہوچکا تھا اور نمازیوں کی تعداد کے پیشِ نظر کُھلے میدان میں بھی صفیں بچھا دی گئی تھیں۔

نماز کے بعد دوپہر کے کھانے کے لیے میزبان جس ہوٹل میں لے کر گئے اسے باہر سے دیکھ کر یہ گمان ہورہا تھا کہ شائد کوئی مدرسہ یا اسکول ہے جسے اب ریسٹورنٹ کی شکل دے دی گئی ہے۔ صرف یہی ریسٹورنٹ نہیں بلکہ ازبکستان کے اکثر سیاحتی مقامات پر آس پاس نظر پھیریں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ پرانی درسگاہوں، خانقاہوں حتیٰ کے مساجد کو بھی ریسٹورنٹس، کیفے، قہوہ خانے اور ہوٹل میں بدل دیا گیا ہے۔

مسجدِ جمعہ کا اندرونی منظر

میزبانوں، مختلف گائیڈز اور مقامی افراد سے گپ شپ کے دوران جب اس حوالے سے بات ہوئی اور وجہ پوچھی تو مختلف جوابات ملے جن میں سے اکثر یہ جواب سننے کو ملا کہ نماز اور عبادات کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ماضی قریب میں بنائی گئی مساجد یا تاریخی مساجد میں سے چند کو مختص کیا گیا ہے جہاں لوگ اپنی ضرورت پوری کرلیتے ہیں، لہٰذا بقیہ عمارتوں کو خالی چھوڑنے کے بجائے دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی حال مدارس کا بھی ہے کہ اب نئے اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کی موجودگی میں ان عمارتوں کو درسگاہ کے طور پر استعمال میں لانے کی ضرورت نہیں اس لیے یہاں سیاحوں کے لیے میوزیم بنانا ہی بہتر قرار پایا۔

غالب گمان یہی ہے کہ پرانے وقتوں میں اتنی بڑی تعداد میں مساجد اور درس گاہیں بنائی گئی تھیں کہ اب ان کو اصل حالات میں بحال کر بھی دیا جائے تو ان کی تعداد مقامی ضروریات سے بہت زیادہ ہوجائے گی۔

نہ اب ’سلک روٹ‘ کی وہ پہلی سی چہل پہل رہی، نہ ہی مدارس میں امام بخاری، امام ترمذی، الخوارزمی اور البیرونی جیسے جیّد اساتذہ کہ طالبعلم دُور دُور سے اکتساب علم کے لیے یہاں آئیں۔ حالانکہ میرے ذاتی خیال کے مطابق اگر موجودہ حکومت ’ایجوکیشن اکانومی‘ یا تعلیمی معیشت پر توجہ دے اور کچھ تاریخی مدارس کو جدید علوم اور ماہر اساتذہ کے ذریعے متعارف کروایا جائے تو بلاشبہ ناصرف تعلیم کے حوالے سے اس خطے کی عظمت رفتہ رفتہ بحال کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے بلکہ دنیا بھر کے ذہین طلبہ کو بھی یہاں آنے پر مائل کیا جاسکتا ہے۔

واپسی پر ہوٹل تک واک کی اور اپنے گائیڈ کمال الدین سے بھی گپ شپ ہوئی۔ کمال الدین 25 سے 26 سال کا نوجوان ہے اور اس نے ابتدائی تعلیم یہاں خیوا سے ہی حاصل کی اور پھر ٹؤرازم میں ڈگری کرنے روس چلا گیا۔ ازبکستان بلکہ وسطی ایشیائی ممالک کے اکثر نوجوان ابتدائی تعلیم کے بعد کوشش کرتے ہیں کہ روس یا کسی یورپی ملک سے ڈگری حاصل کریں اور وہیں نوکری تلاش کریں، ہاں اگر بات نہ بنے تو پھر اپنے ملک میں قسمت آزمائی کریں۔ دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح یہاں بھی ’باہر کی ڈگری‘ کو اہمیت دی جاتی ہے اور اس سے نوکری کے حصول میں قدرے آسانی رہتی ہے۔

خدا حافظ خیوا

کمال نے بتایا کہ چونکہ انہوں نے اسکول میں روسی زبان پڑھی تھی اس لیے وہ روسی زبان سے تو آشنا تھا ہی لیکن اس نے فیصلہ کیا کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی سیکھی جائے تاکہ اسے نوکری حاصل کرنے کے بہتر مواقع دستیاب ہوسکیں۔ یوں وہ ذاتی کوشش اور انٹرنیٹ کی مدد سے اتنی انگریزی سیکھ گیا کہ اب وزارت کے لیے بطورِ گائیڈ خدمات سرانجام دے سکے اور یہاں آنے والے مہمانوں کو اپنے شہر کی بھرپور سیر کرواسکے۔

حکومت بھی اب نئے صدر کی قیادت میں ملکی نظام میں نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کی خواہاں ہے اور اس مقصد کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ بالخصوص بیرون ملک اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کو حکومتی منصوبوں میں شامل کیا جارہا ہے۔ ملک کے موجودہ صدر شوکت میرزایوف خود بھی ٹیکنالوجی سائنسز میں پی ایچ ڈی ہیں اور ملک میں نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر شراکت داری اور ازبکستان کو سیاحوں کے لیے پسندیدہ ملک بنانا ان کی اہم ترجیحات ہیں۔

دنیا کے مختلف خطوں سے آنے والے سیاحوں کے لیے خیوا یقینی طور پر کسی سیاحتی جنت سے کم نہیں۔ یہ حقیقتاً ایک دلچسپ شہر ہے اور یہاں ہر کسی کے لیے اس کی طبعیت اور مزاج سے تعلق رکھنے والی سرگرمیاں موجود ہیں۔ کوئی تاریخی ورثے کے مطالعے میں مصروف ہے، کوئی قدیم تہذیبی عناصر کو کھوج رہا ہے تو کوئی چشمِ تصور سے مسلمانوں کے اس سنہری دور میں جھانکنے کی کوشش کررہا ہے جب اس خطے کی پہچان یہاں جنم لینے والی علم دوست شخصیات تھیں۔ یہاں جابجا اسلام کے سنہری دور کی تاریخ بکھری پڑی ہے۔ وہ دور جب اسلامی ممالک اور اسلامی شخصیات علم و ادب کی دنیا میں ایک اتھارٹی یا سند کی حیثیت رکھتی تھیں اور صرف اپنے ہی نہیں بلکہ بیگانے بھی ان سے علم حاصل کرنے پر فخر محسوس کیا کرتے تھے۔


لکھاری انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ میں ماسٹرز کرنے کے بعد لندن کے ایک نجی اردو چینل کے ساتھ پروڈیوسر کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

احمد شاہین

لکھاری انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ میں ماسٹرز کرنے کے بعد لندن کے ایک نجی اردو چینل کے ساتھ پروڈیوسر کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔