نقطہ نظر کشمیر تنازع ایسا چیلنج جس سے پاکستان بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے! اہم نکتہ یہی ہے کہ کشمیر کے حل کا بوجھ جتنا زیادہ پاکستان کے سر پر ہے اتنا ہی زیادہ بھارت کے سر پر بھی ہے۔ توقیر حسین لکھاری سابق سفیر ہیں اور جارج ٹاؤن اینڈ سائراکس یونیورسٹی سے بطور ایڈجنکٹ فیکلٹی وابستہ ہیں۔ اب چونکہ کشمیر تنازعے نے کروٹ لی ہے لہٰذا پاکستان کی کشمیر سے متعلق حکمتِ عملی کے لیے نئے چیلنجز بھی پیدا ہوچکے ہیں۔ موجودہ چیلنج بہت زیادہ پچیدہ تو ہے لیکن ہم چاہیں تو اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔چونکہ کشمیر تنازع پاکستان کے لیے فقط خارجہ پالیسی سے جڑا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارا قومی مسئلہ بھی ہے لہٰذا کشمیر سے متعلق کامیاب حکمتِ عملی کو لازماً قومی پالیسی کا حصہ ہونا چاہیے۔ مؤخر الذکر کے لیے پاکستان کی جانب سے ایک مؤثر سفارتی حکمتِ عملی میں ممکنہ طور پر 4 عناصر شمار ہوں گے۔ جن میں کشمیری اور ان کی رستم صفت جدوجہد، کشمیری قیادت، پاکستان کی سفارت کاری اور دنیا میں بکھرے کشمیریوں اور سمندر پار پاکستانیوں کی مہم شامل ہیں۔ ان تمام عناصر کو مربوط انداز میں بھارت پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے 4 آلات کار دستیاب ہیں: عالمی برادری، بالخصوص بڑی قوتیں، بین الاقوامی میڈیا، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے، اور پاک بھارت تعلقات۔ سفارتی حکمتِ عملی کا مرکزی نکتہ بلاشبہ کشمیری مزاحمت ہوگی جو حالیہ برسوں میں مزید مضبوط ہوئی ہے۔ کسی وقت میں پیروی کرنے والا نوجوان آج رہنما بن چکا ہے۔ تعلیم یافتہ، تحریک چلانے سے متعلق دورِ حاضر کے طور طریقوں سے روشناس اور سوشل میڈیا کے استعمال کرنے اور دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے والی ویڈیوز بنانے کی صلاحیت رکھنے والے کشمیری نوجوان 2016ء میں برہان وانی کی موت کے بعد سے مہم کی متحرک قوت بنے ہوئے ہیں۔ بھارت نے جیسے ہی پابندیوں میں نرمی کی تو کشمیریوں کی تحریک اپنی پوری قوت کے ساتھ سرگرم عمل ہوجائے گی۔ کشمیریوں اور پاکستان کی جانب سے میڈیا، انسانی حقوق اور ایڈووکیسی گروہوں کے ساتھ ساتھ مختلف تھنک ٹینکس کے ذریعے دنیا بالخصوص مغرب میں عالمی سطح کی مہم بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے اہم ترین آلہ کار ثابت ہوگی۔ اس مہم کا محور مقامی سیاست کو بنایا جائے۔ ایک ایسی مہم جس میں کشمیر میں انسانیت سوز حالات و واقعات کے بارے میں رائے عامہ متحرک اور خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ میں عالمی بحران کی فضا کو بھرپور طریقے سے ظاہر کیا جائے۔ کشمیریوں کے انسانی حقوق سے متعلق امریکی کانگریس میں 22 اکتوبر کو ہونے والی سماعت اس قسم کی کوشش سے برآمد ہونے والے مثبت نتیجے کی ایک مثال ہے۔اگر مہم پوری طرح سے کامیاب رہی تو اس سے عالمی سطح پر بھارت کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے، لیکن مقصد کے حصول کے لیے صرف اتنا ہی کافی نہیں ہوگا۔ یہ مہم اسی وقت نتیجہ خیز ثابت ہوگی جب بھارت کو اپنے بدترین مظالم کی کسی نہ کسی صورت ایک اور قیمت چُکانا پڑے گی۔ یہ قیمت مقامی سطح پر عدم استحکام، پاک بھارت تعلقات کو نقصان، علاقائی امن کو خطرے، جنگ کے رسک اور بھارت کے لیے اقتصادی مواقع کے نقصان کی صورت میں چکانی پڑسکتی ہے۔ تو پھر پاکستان کس طرح بھارت کے لیے قیمت بھاری کرسکتا ہے؟ جواب ہے قومی حکمتِ عملی کے ذریعے۔ یاد رہے کہ بھارت پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگا کر اور اپنی ساکھ کو بڑھا کر کشمیر میں کیے جانے والے مظالم کے بارے میں بیرونی دنیا کی رائے کو دبانے کی کوشش کرے گا، لہٰذا پاکستان کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ بھارت اپنے اس مقصد میں کسی بھی طور پر کامیاب نہ ہوسکے۔ دراصل پاکستان کی کمزور ساکھ کی وجہ سے بھارت کے ابھار کو بڑھاوا ملا ہے۔پاکستان عالمی سطح پر کشمیریوں کے لیے آواز اٹھانے میں غیر معمولی کردار ادا کرے گا۔ لیکن ایک ملک کی اتنی ہی آواز سنی جاتی ہے جتنی کہ اس کی دنیا میں ساکھ بنی ہوتی ہے۔ یہ مانا کہ پاکستان مذہب کے نام پر جنگ کرنے والوں کی معاونت نہیں کر رہا لیکن جب تک دنیا یہ سمجھتی رہے گی کہ مذہبی جنگجو پاکستان میں موجود ہیں تب تک ہمارے لیے پُراعتماد تعاون حاصل کرنا دشوار رہے گا۔ ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔واشنگٹن نے یہ رٹ لگائی ہوئی ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر موجود شدت پسندوں کو لگام دے۔ یہاں معاملہ صرف بھارت تک محدود نہیں ہے۔ شدت پسندوں کے افغان طالبان سے تعلقات ہیں اور یوں وہ افغانستان کے امن عمل کو متاثر کرسکتے ہیں۔ واشنگٹن قابلِ فہم طور پر تشویش کا شکار ہے اور اسی طرح پاکستان کے لیے بھی یہ بات تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔ افغانستان میں عدم استحکام سے پاکستان کا استحکام اور کشمیر کاز دونوں متاثر ہوں گے۔امید کی جاتی ہے کہ پاکستان کو اس بات کا احساس ہو کہ داخلی نظم اور استحکام کو داؤ پر لگا کر بیرونی چیلنج سے نمٹنا بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔ سیکیورٹی، اقتصادی ترقی اور سیاسی استحکام ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ یہی یکجا ہوکر قومی طاقت وجود میں لاتے ہیں، لہٰذا انہیں ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے بجائے بہتر بنانا چاہیے۔ پاکستان اپنی قومی طاقت کو بڑھا کر بھارت کے ساتھ اقتصادی شراکت دار کے طور پر اپنی اہمیت کو بڑھا سکتا ہے۔ پاکستان کو نظرانداز کرنے سے بھارت کو کشمیریوں پر اپنے ظلم کی مہنگی قیمت چکانی پڑجائے گی۔ ارادوں کا ایک زبردست ٹکراؤ ہونے کو ہے۔ مودی جبر کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور اقتصادی مراعات اور نئے شراکت داروں کے ساتھ سیاسی رعایتوں کے ذریعے کشمیریوں کی وفاداری خریدنے کی کوشش کریں گے کہ شاید کشمیر میں تحریک ٹھنڈی پڑجائے گی۔ اگر مودی کامیاب ہوجاتے ہیں تو پاکستان کو پیچھے ہٹنا ہوگا اور اپنی حکمتِ عملی پر دوبارہ نظر ثانی کرنا ہوگی۔ حکمتِ عملی میں کشمیری عوام کو اولیت حاصل ہونی چاہیے۔ لیکن اگر مودی آزادی سے متعلق کشمیری آرزوؤں کی لہر کو روکنے میں ناکام رہتے ہیں تو اس کا کوئی نہ کوئی ردِعمل ضرور دیکھنے کو ملے گا۔ یا تو بدترین انسانی بحران کا سامنا ہوگا جس میں سیکڑوں، ہزاروں ہجرت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، یعنی ایسی صورتحال پیدا ہوجائے گی جس سے خطے میں عدم استحکام بڑھے گا اور بھارت کا ابھار خطرے میں پڑ جائے گا۔ یا پھر بھارت کو کشمیریوں کی خواہشات تسلیم کرنا پڑیں گی۔ بدلے میں ابھرتے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات جیسی کوئی چیز مل جائے تو بھارت کو اپنی پالیسی بدلنے کی ٹھوس وجہ بھی دستیاب ہوگی۔ جب تک پاکستان خود کو دنیا میں نہیں ابھارتا تب تک تنازعے کے حل کے لیے پاک بھارت تعلقات اہم عنصر ثابت نہیں ہوں گے کیونکہ اس وقت بھارت سمجھتا ہے کہ پاکستان سے اچھے تعلقات میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، جبکہ پاکستان یہ سمجھ رہا ہے کہ ناساز تعلقات سے اسے کوئی نقصان نہیں ہے۔ یہ سوچ ہمارے اپنے اور کشمیریوں کے لیے منفی اسٹیٹس-کو کا باعث بنے گی۔اہم نکتہ یہی ہے کہ کشمیر کے حل کا بوجھ جتنا زیادہ پاکستان کے سر پر ہے اتنا ہی زیادہ بھارت کے سر پر بھی ہے۔ جدوجہدِ کشمیر درحقیقت جدوجہدِ پاکستان ہے۔ یہ مضمون 29 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔ توقیر حسین لکھاری سابق سفیر ہیں اور جارج ٹاؤن اینڈ سائراکس یونیورسٹی سے بطور ایڈجنکٹ فیکلٹی وابستہ ہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔