جس نسل کو 1994ء کے ورلڈ کپ نے کرکٹ سے واپس ہاکی کی محبت میں مبتلا کیا تھا، وہ آج اس کھیل میں ہماری ذلت کو دیکھ کر ضرور کرب کا شکار ہوں گے۔
1992ء کے کرکٹ ورلڈ کپ نے پاکستان میں جہاں ہاکی کو پیچھے دھکیل دیا تھا صرف 2 سال بعد شہباز سینئر اور منصور احمد جیسے ہیروں کی بدولت ہاکی ایک بار پھر بہت سارے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی۔
ہاکی کے اس عروج میں 1994ء کی چیمپئنز ٹرافی کی فتح اور سب سے بڑھ کر ورلڈ کپ میں کامیابی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ لیکن افسوس کہ اس کھیل میں ہمارے عروج کا یہ آخری سال تھا، پھر ایسا وقت اب تک کبھی نہیں آسکا۔
1998ء میں ہم سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوگئے۔ لیکن پاکستان پانچویں پوزیشن ضرور حاصل کرگیا۔ شائقین میں کھیل کی سمجھ بوجھ اور دلچسپی پوری طرح باقی تھی۔ مجھے آج بھی یاد ہے 1998ء میں دھن راج پلے کی قیادت میں انڈین ہاکی ٹیم جب پاکستان کے دورے پر آئی تب لوگ لائنوں میں لگ کر نیشنل ہاکی اسٹیڈیم لاہور میں داخل ہوئے تھے۔ ہائی اسکول کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ہم بھی ان لمبی قطاروں کا حصہ تھے۔ یہاں تک حالات کافی معقول تھے۔ میڈیا ابھی پی ٹی وی کی حد تک تھا اور اخبارات میں رنگین ایڈیشن چھپتے تھے۔ سہیل عباس جیسے سپر اسٹار ٹیم میں آچکے تھے۔
1998ء میں ٹیم کے ایک گول کیپر ہوتے تھے محمد قاسم۔ وہ مجھے اس لیے یاد آگئے کہ سینے پر لگنے والی ایک گیند نے انہیں وہ زخم دیا جو بعد میں ناسور بن گیا۔ اس زخم سے لگنے والی بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لیے انہوں نے علاج تو بہت کروایا مگر وہ صحتیاب نہیں ہوسکے۔ ہماری نسل کے پہلے بے یار و مددگار کھلاڑی کا انجام کافی تکلیف دہ تھا۔
یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب پاکستان میں ہاکی کے لیے ابھی اسپانسرز دستیاب تھے۔ گو دہشت گردی کی جنگ شروع ہوچکی تھی تاہم ابھی میدان نہیں اجڑے تھے۔