دنیا

اراکین یورپی پارلیمنٹ دورہ مقبوضہ کشمیر کیلئے بھارت پہنچ گئے

وفد غیر سرکاری تنظیم کی دعوت پر بھارت آیا ہے اور ان کی ملاقاتوں کا انتظام ہم نہیں کررہے ہیں، عہدیدار یورپی یونین

یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں موجود سخت گیر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے 30 اراکین 29 اکتوبر کو (کل) مقبوضہ جموں و کشمیر کا دورہ کریں گے جو 5 اگست کے بھارتی حکومت کے یک طرفہ فیصلے کے بعد کسی بھی بین الاقوامی وفد کا پہلا دورہ ہوگا۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق سخت گیر نظریات کی حامل جماعتوں کے وفد کے دورے کو بھارتی حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے جبکہ یورپی یونین کی پارلیمنٹ اور یونین کے رہنماؤں کا اس دورے سے تعلق نہیں ہے جس کے باعث سفارتی سطح پر شکوک کا اظہار کیا جارہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں قائم یورپی یونین کے کئی رکن ممالک کے سفارت خانے ایک روز قبل تک اس دورے سے لاعلم تھے۔

مزید پڑھیں:کشمیر پر بھارتی قبضے کے 72 برس مکمل، دنیا بھر میں یوم سیاہ

یورپی یونین کے ایک عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ‘اراکین پارلیمنٹ کے وفد کا دورہ بھارت سرکاری سطح پر نہیں اور وہ یہاں ایک غیر سرکاری تنظیم کی دعوت پر آئے ہیں’۔

بھارت میں موجود عہدیدار کا کہنا تھا کہ ‘ہم ان کی کوئی ملاقات کا انتظام نہیں کر رہے ہیں’۔

رپورٹ کے مطابق وفد میں پولینڈ، فرانس اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے دائیں بازو کے اراکین کی اکثریت ہے اور انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے بھی ملاقات کی۔

وفد منگل کو مقبوضہ جموں و کشمیر جائے گا اور ایک روزہ قیام کے بعد واپس آئے گا جس کے بارے میں بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ‘اراکین کو جموں، کشمیر اور لداخ میں ثقافتی اور مذہبی تنوع سے بہترین آگاہی دینا ہے’۔

یہ بھی پڑھیں:مقبوضہ جموں و کشمیر: بس اسٹینڈ پر گرینیڈ حملے میں 15 افراد زخمی

مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت نے 5 اگست سے قبل ہی ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور موبائل سروس کو معطل کرکے پورے خطے میں کرفیو نافذ کر دیا تھا اور کئی دہائیوں سے مقبوضہ خطے کو حاصل خصوصی حیثیت بھی منسوخ کردی تھی۔

بھارتی حکومت نے بعد ازاں پابندیوں میں نرمی کا اعلان کیا تھا لیکن مقبوضہ کشمیر کے عوام تاحال انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔

فرانس کی سخت گیر دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی سے تعلق رکھنے والے رکن تھیری میریانی کا کہنا تھا کہ ‘ہم کشمیر میں صورت حال دیکھنے جارہے ہیں اور جائزہ لیں گے کہ وہ کیا دکھانا چاہتے ہیں’۔

مزید پڑھیں:بھارت چاہتا ہے مقبوضہ کشمیر میں نظریاتی تفریق پیدا ہو، وزیر اعظم آزاد کشمیر

مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت نے گزشتہ 72 برسوں سے قبضہ کر رکھا ہے اور 30 برس کے دوران آزادی کی تیز ہوتی ہوئی تحریک کو دبانے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں اور 5 اگست 2019 کو مقبوضہ خطے کی خصوصی حیثیت ختم کردی۔

بھارت مظالم کے خلاف مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام سراپا احتجاج ہیں اور یہ مسئلہ عالمی برادری کے لیے توجہ طلب ہے اور حالیہ اقدامات کے بعد اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی فورمز میں اس پر بات کی جارہی ہے اور تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

اے ڈی بی کی سندھ میں تعلیمی منصوبے کیلئے ساڑھے 7 کروڑ ڈالر قرض کی منظوری

جب تک زندہ ہوں کسی کو این آر او نہیں دوں گا، وزیراعظم

عمران خان جلد اپنا استعفیٰ دینے والے ہیں، بلاول بھٹو زرداری