ماہرین کا خیال تھا کہ اس شرح کو دیکھتے ہوئے یہ کمپنی سال کے اختتام تک 25 کروڑ فونز فروخت کرنے میں کامیاب ہوسکے گی مگر ہواوے کے بانی رین زینگ فائی نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا کہ رواں سال اسمارٹ فون پروڈکشن 27 کروڑ یونٹ تک پہنچ جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پروڈکشن بہت زیادہ ہے اور اس کے لیے متعدد چپ فیکٹریوں کی ضرورت ہے جو ہواوے کو سپلائی دے سکیں۔
جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ امریکی پابندیوں کے نتیجے میں ہواوے کے اسمارٹ فونز بزنس کو رواں سال کچھ مشکلات کا سامنا رہا اور اس کے لیے نمبرون کمپنی بننے کے ہدف کا حصول مشکل نظر آرہا تھا۔
مگر حالیہ مہینوں کے دوران امریکی پابندیوں کے باوجود بھی ہواوے نے اسمارٹ فون بزنس کی شرح کو بڑھانے میں کامیابی حاصل کی، اب 25 کروڑ فونز کی فروخت تو یقینی نظر آتی ہے۔
تاہم اگر یہ کمپنی 27 کروڑ کے ہدف کو حاصل کرلیتی ہے تو یہ سام سنگ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی سب سے بڑی اسمارٹ فون کمپنی بن جائے گی، مگر یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ مئی میں امریکی پابندیوں کے بعد چین سے باہر ہواوے کے فونز کی فروخت میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
مگر گزشتہ 6 ماہ کے دوران کمپنی کی کارکردگی سے عندیہ ملتا ہے کہ ان پابندیوں سے اس پر زیادہ اثرات مرتب نہیں ہوئے اور اکتوبر تک 20 کروڑ فونز کو فروخت کرچکی ہے۔
عام طور پر ہواوے ہر ماہ 2 کروڑ فونز فروخت کرتی ہے مگر گزشتہ 2 ماہ کے دوران یہ تعداد بہت زیادہ رہی اور 27 کروڑ فونز کا ہدف ممکن نظر آتا ہے۔
2018 میں ہواوے نے مجموعی طور پر 20 کروڑ 60 لاکھ فونز فروخت کیے اور اگر 27 کروڑ کا ہدف حاصل ہوجاتا ہے تو ایک سال میں فروخت کی شرح میں 31 فیصد اضافہ ہوگا۔
گزشتہ سال سام سنگ نے 29 کروڑ فونز فروخت کیے تھے مگر اس سال کمپنی کی ڈیوائسز کی فروخت میں کمی دیکھنے میں آئی ہے اور ہواوے کے لیے اسے پیچھے چھوڑنا ممکن ہے۔
ہواوے کے بانی کا کہنا تھا کہ کمپنی کو اینڈرائیڈ کے متبادل کی ضرورت نہیں اور وہ گوگل کے آپریٹنگ سسٹم کے ساتھ ہی کام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔