پاکستان

مجھے سہولیات ملنے سے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پریشان رہتے ہیں، شاہد خاقان عباسی

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایل این جی کیس میں شاہد خاقان، مفتاح اسمٰعیل کے عدالتی ریمانڈ میں 19 نومبر تک توسیع کردی۔
|

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) اسکینڈل میں سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کے عدالتی ریمانڈ میں توسیع کردی۔

ساتھ ہی عدالت میں پیشی کے دوران شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ انہیں سہولیات ملنے سے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پریشان رہتے ہیں۔

وفاقی دارالحکومت کی عدالت میں ایل این جی کیس کی سماعت ہوئی، جہاں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کو پیش کیا گیا۔

اس دوران شاہد خاقان عباسی کی بہن سعدیہ عباسی نے کہا کہ ان کے بھائی کے اہل خانہ کو کمرہ عدالت میں داخلے سے روک دیا گیا جبکہ عدالت نے اہل خانہ کو کمرہ عدالت میں آنے کی اجازت دے رکھی ہے، اس پر احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے کہ جن اہل خانہ کے نام فہرست میں ہیں انہیں آنے دیا جائے۔

مزید پڑھیں: ایل این جی کیس: شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسمٰعیل عدالتی ریمانڈ پر جیل منتقل

اس موقع پر بیرسٹر ظفر اللہ نے عدالت سے استدعا کی کہ سماعت سے قبل شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی اجازت دی جائے، اس پر عدالت نے وکلا کو قانونی مشاورت کی اجازت دے دی۔

اس موقع پر شاہد خاقان عباسی نے بھی اپنی مرضی سے علاج کروانے کی درخواست دائر کردی اور موقف اپنایا کہ انہیں بھی اپنے خرچ پر نجی ہسپتال سے علاج کی اجازت دی جائے۔

شاہد خاقان عباسی نے شکوہ کیا کہ پنجاب حکومت کسی چیز کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔

سماعت کے دوران ہی شاہد خاقان عباسی نے ایل این جی کیس کا ٹرائل براہ راست ٹی وی پر دکھانے کی بھی درخواست کی۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان اور چیئرمین نیب کہتے ہیں میں احتساب کر رہا ہوں، لہٰذا یہ ٹرائل عوام کو براہ راست دکھایا جائے تاکہ سب کو معلوم ہو کہ کیا ہورہا ہے، اس پر جج محمد بشیر نے کہا کہ ٹرائل کی لائیو کوریج کیسے ہوسکتی ہے؟

جج محمد بشیر نے ریمارکس دیئے کہ لاہور ہائیکورٹ نے لائیو کوریج کا منع کررکھا ہے، اس پر بیرسٹر ظفراللہ نے جواب دیا کہ بیرون ملک کئی عدالتوں کے ٹرائل لائیو ہوتے ہیں، مجھے لاہور ہائیکورٹ کے حکم کا معلوم نہیں۔

اس پر عدالت کے جج نے ریمارکس دیے کہ آپ لاہور ہائیکورٹ کا حکم پڑھ لیں۔

مصدق ملک اور عدالتی اہلکار کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

عدالت میں سماعت کے دوران ہی کمرہ عدالت میں داخل ہونے پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما مصدق ملک اور عدالتی اہلکار کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

عدالتی اہلکار نے مصدق ملک کی شکایت کی اور کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے مجھے باہر گالیاں دیں، اس پر جج نے مصدق ملک کو روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ گالیاں کیوں دی ہیں؟ گالیاں تو نہ دیں۔

اس پر مصدق ملک نے کہا کہ یہ لوگ مجھ سے بد تمیزی کرتے ہیں، یہ بھی حلف لیں، میں بھی حلف لیتا ہوں کہ کس نے گالیاں دیں۔

شاہد خاقان عباسی کی لیپ ٹاپ فراہم کرنے کی درخواست

دوران سماعت ہی شاہد خاقان عباسی نے عدالت سے دوبارہ استدعا کی کہ انہیں جیل میں کیس کی تیاری کے لیے لیپ ٹاپ کی سہولت دی جائے، اس پر نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض کیا اور کہا کہ قانون کے مطابق جیل کے قیدی کو لیپ ٹاپ کی سہولت نہیں دی جا سکتی۔

اس پر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اگر مجھے کیس میں دفاع کے لیے لیپ ٹاپ کی سہولت نہیں مل سکتی تو ان سے بھی کہیں کہ لیپ ٹاپ کے بغیر ریفرنس بنائیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایل این جی کیس: شاہد خاقان عباسی کی جیل میں لیپ ٹاپ فراہم کرنے کی درخواست

تاہم جہاں ایک جانب انہوں نے لیپ ٹاپ کی درخواست کی تو وہی شاہد خاقان عباسی نے جیل میں بہتر سہولیات واپس لینے کی استدعا کردی۔

بعد ازاں عدالت نے شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسمٰعیل اور عمران الحق کے عدالتی ریمانڈ میں 19 نومبر تک توسیع کردی گئی، اس پر وکیل نے پوچھا کہ کیا ملزمان کا 14 دن سے زیادہ عدالتی ریمانڈ دیا جاسکتا ہے۔

اس پر احتساب عدالت کے جج نے ریمارکس دیے کہ اس میں کوئی مسئلہ نہیں، 14 دن سے زائد کا ریمانڈ بھی ہوسکتا ہے، 14 دن کا ریمانڈ صرف مجسٹریٹ کے لیے ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں عدالت نے ایل این جی کیس میں گرفتار تینوں ملزمان کو اتوار کو ملنے کی اجازت دے دی۔

عدالت نے حکم دیا کہ وکلا کو بھی ملزمان سے ملاقات کے لیے جیل حکام ایک دن مقرر کرے، ساتھ ہی عدالت نے جیل حکام سے شاہد خاقان عباسی کی میڈیکل رپورٹ بھی طلب کرلی۔

اس دوران شاہد خاقان عباسی کے وکیل نے استدعا کی کہ علاج کے حوالے سے جلد فیصلہ کیا جائے یہ نہ ہو کہ ان کا حال نواز شریف جیسا ہو جائے۔

وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کی پریشانی مجھ سے دیکھی نہیں جاتی، شاہد خاقان

قبل ازیں عدالت میں پیشی کے موقع پر ایک صحافی نے سوال کیا کہ عباسی صاحت آپ کی صحت کیسی ہے؟ جس پر سابق وزیراعظم نے کہا کہ صحت اچھی ہے۔

پنجاب حکومت کی جانب سے صحت کی سہولیات کی فراہمی سے متعلق سوال پر سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے سہولیات فراہم کی ہیں۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس میں ایل این جی پلانٹس کے مالک گرفتار

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مجھے سہولیات ملنے سے وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پریشان رہتے ہیں، اس لیے میں نے کہا ان کی پریشانی ختم کردوں اور میں سہولیات واپس کر دیتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کی پریشانی مجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔

اس دوران ان سے سوال کیا گیا کہ آپ سابق وزیراعظم ہیں، سہولیات لینا آپ کا حق ہے، جس پر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مجھے سہولیات کی کوئی ضرورت نہیں۔

ایل این جی کیس

واضح رہے کہ شاہد خاقان عباسی کو 18 جولائی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کیس میں گرفتار کیا تھا، اس کے علاوہ 7 اگست کو ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد ہونے پر مفتاح اسمٰعیل کو عدالت سے گرفتار کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں پر الزام ہے کہ انہوں نے اس وقت قوائد کے خلاف ایل این جی ٹرمینل کے لیے 15 سال کا ٹھیکہ دیا، یہ ٹھیکہ اس وقت دیا گیا تھا جب سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں شاہد خاقان عباسی وزیر پیٹرولیم تھے۔

نیب کی جانب سے اس کیس کو 2016 میں بند کردیا گیا تھا لیکن بعد ازاں 2018 میں اسے دوبارہ کھولا گیا۔

یاد رہے کہ نیب انکوائری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) اور انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم کی انتظامیہ نے غیر شفاف طریقے سے ایم/ایس اینگرو کو کراچی پورٹ پر ایل این جی ٹرمینل کا کامیاب بولی دہندہ قرار دیا تھا۔

اس کے ساتھ ایس ایس جی سی ایل نے اینگرو کی ایک ذیلی کمپنی کو روزانہ کی مقررہ قیمت پر ایل این جی کی ریگیسفائینگ کے 15 ٹھیکے تفویض کیے تھے۔

نہ صرف شاہد خاقان عباسی بلکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف پر بھی اپنی مرضی کی 15 مختلف کمپنیوں کو ایل این جی ٹرمینل کا ٹھیکا دے کر اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف نیب تحقیقات اگلے مرحلے میں داخل

2016 میں مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں نیب کراچی میں منعقدہ ریجنل بورڈ کے اجلاس میں شاہد خاقان عباسی کے خلاف انکوائری بند کردی گئی تھی۔

رواں برس 2 جنوری کو ای بی ایم نے اس وقت شاہد خاقان عباسی کے خلاف 2 انکوائریز کی منظوری دی تھی، جب وہ سابق وزیر پیٹرولیم اور قدرتی وسائل تھے۔

ان انکوائریز میں سے ایک ایل این جی کی درآمدات میں بے ضابطگیوں میں ان کی مبینہ شمولیت جبکہ دوسری نعیم الدین خان کو بینک آف پنجاب کا صدر مقرر کرنے سے متعلق تھی۔

تاہم شاہد خاقان عباسی کا موقف ہے کہ انہوں نے ایل این کی درآمد کے لیے دیے گئے ٹھیکے میں کوئی بے ضابطگی نہیں کی اور وہ ہر فورم پر اپنی بے گناہی ثابت کرسکتے ہیں اور یہ کہ 2013 میں ایل این جی کی برآمدات وقت کی اہم ضرورت تھی۔

مزید پڑھیں: ایل این جی کے ’غیر شفاف‘ ٹھیکوں پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ

اس سلسلے میں رواں برس مارچ میں سابق وزیر اعظم ایل این جی کیس میں نیب کے سامنے پیش ہوئے تھے، جس کے بعد احتساب کے ادارے نے ان پر سفری پابندی لگانے کی تجویز دی تھی۔

جس کے بعد اپریل میں حکومت نے 36 ارب 69 کروڑ 90 لاکھ روپے مالیت کے ایل این جی کیس میں شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل سمیت 5 افراد کے بیرونِ ملک سفر کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔

بعدازاں سابق وزیراعظم جون میں بھی تفتیش کے لیے نیب میں پیش ہوئے تھے تاہم نیب نے شاہد خاقان عباسی کو ان کے خلاف جاری تفتیش کے پیشِ نظر ایک مرتبہ پھر بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا۔

دوسری جانب شاہد خاقان عباسی نے نیب کی جانب سے مزید ریکارڈ طلب کیے جانے پر مہلت طلب کی تھی اور اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ متعلقہ ریکارڈ ان کے پاس نہیں بلکہ وزارت پیٹرولیم کے پاس ہے۔

انصارالاسلام پر پابندی کا نوٹیفکیشن بظاہر غیرموثر ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ

ماتحت سے جنسی تعلقات کا الزام، خاتون رکن کانگریس مستعفی

پاستا بنانے کی نہایت آسان ترکیب