نقطہ نظر

کیا نواز شریف پنجاب کے بھٹو ثابت ہوں گے؟

وہ افراد جو ان سے تعاون کرتے ہیں، جس طرح گجرات کے چوہدریوں نے کیا ہے، ان کے لیے ایسے مسائل پیدا نہیں ہوتے۔
لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

ماضی میں اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے وجود میں آنے والے سیاسی اتحاد کے سربراہ نواز شریف سے برسوں پہلے یہ سوال پوچھا تھا کہ نومبر 1988ء کے عام انتخابات میں بینظیر بھٹو کی پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نئے نویلے اتحاد کو تشکیل دینے کے پیچھے کہیں آئی ایس آئی اور لیفٹیننٹ جنرل حمید گل کا ہاتھ تو نہیں ہے، تو اس سوال کا جواب انہوں نے دیا کہ ’میں اس سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا‘۔

جہاز حادثے کے نتیجے میں جنرل ضیاالحق اور ان کے قریبی ساتھیوں کی موت کے بعد انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا گیا تھا اور ان انتخابات سے قبل جماعت اسلامی کے نائب امیر پروفیسر غفور احمد کی کراچی میں واقع رہائش گاہ میں گزری وہ دوپہر مجھے اچھی طرح یاد ہے۔

چونکہ اس وقت تک نواز شریف کے پورے سیاسی کیریئر کو ایک یا اس سے زائد جرنیلوں نے بنایا تھا، اس لیے سوال کسی بھی طرح سے نامعقول نہیں تھا بلکہ ان دنوں منظرِ عام پر آنے والی خبروں کی بنیاد پر ہی پوچھا گیا تھا۔ لیکن پنجاب سے تعلق رکھنے والے نوجوان رہنما کو میرا سوال ناگوار گزرا اور جواب دیتے وقت ان کے گال سرخ ہونے لگے تھے۔

یہ تو تب کی بات تھی، مگر آج 3 مرتبہ منتخب ہونے والے سابق وزیرِاعظم مختلف سنگین امراض سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ پھر جس قدر انتہائی غیر مناسب انداز میں ان کا علاج کیا جا رہا ہے اور سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کے پیش نظر یہ کہنا مشکل ہے کہ ان کی صحت کس قدر تشویشناک ہے۔

1980ء کی دہائی کے آغاز میں ایک فوجی سالار کی جانب سے جس شخص کو تواناں سویلین شراکت دار اور سویلین چہرے کے طور پر چُنا گیا تھا آج وہی شخص انہی طاقتوں کے لیے زہرِ قاتل سا بنا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

نواز شریف کے قریب 40 سالہ سیاسی کیریئر متعدد مراحل پر مشتمل ہے۔ وہ اور ان کے گھر والوں پر جنرل ضیا کے احسانات تھے کیونکہ انہوں نے قومیائے جانے والے اتفاق فاؤنڈری نامی اسٹیل اور فولاد کے کارخانے کو شریف خاندان کو لوٹایا تھا اور نواز شریف کو سیاسی میدان میں اتارا تھا۔

1980ء کی پوری اور 1990ء کی دہائی کی ابتدا میں کاروبار کرنے والے شریفوں نے خوب دولت جمع کی۔ یہ واضح نہیں کہ کتنی دولت فوج کی پشت پناہی ملنے کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی لیکن پھر بھی کافی زیادہ تھی اور یہی وہ معاملہ ہے جو ان کی موجودہ پریشانیوں کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ظاہر ہے کہ جب وہ ان کے ساتھ کھڑے تھے تب ان کے لیے یہ کوئی مسئلے کی بات نہیں تھی۔

وہ افراد جو ان سے تعاون کرتے ہیں، جس طرح گجرات کے چوہدریوں نے کیا ہے، ان کے لیے ایسے مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ کسی کو پنجاب کا کوآپریٹو اسکینڈل یاد ہے جس میں لاکھوں غریب کسانوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی پر ہاتھ صاف کیا گیا تھا اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ کسے پہنچا تھا؟ پسندیدہ لوگوں کو پلاٹوں اور پرمٹوں، ایس آر اوز میں رد و بدل کرکے مناسب وقت پر فوائد کی فراہمی اور قومی بینکوں سے قرضوں کی فراہمی یا معافی کے ذریعے ایک طویل عرصے سرپرستی کی جاتی رہی ہے۔

اس عمل کی بنیاد ضیا کے غیر جماعتی سیاست میں رکھی گئی تھی۔ (جب مشرف کی نیم سویلین سربراہ بننے کی خواہش پیدا ہوئی تب مشرف نے بھی یہی کام کیا۔)

پیپلز پارٹی کو راستے سے ہٹانے کے لیے فوج یا اس کے نامزد صدر کے حامی سویلین رہنما یعنی نواز شریف کے ساتھ 1980ء کی دہائی کے اواخر سے لے کر 1999ء تک اس کھیل کو جاری رکھا گیا۔ اس دوران جب جب پیپلزپارٹی کو اقتدار ملا تو اس نے بھی انتقام لینے کی کوشش کی۔ 2 شخصیات میں سے کبھی اقتدار ایک کو ملتا تو کبھی دوسرے کو، ایسے میں ان دنوں سیاسی انتقام عام ہوگیا تھا۔

1997ء کے انتخابات کے بعد نواز شریف کو لگا کہ وہ اپنی زبردست ساکھ بٹھا چکے ہیں لہٰذا انہوں نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اور خود کو ’امیر المومنین‘ قرار دے دیا۔ چونکہ پیپلزپارٹی پر کرپشن کے الزامات کی اتنی ضربیں لگی تھیں کہ اس میں میدان میں کھڑے ہوکر مقابلہ کرنے کی ہمت ہی نہیں بچی تھی، لہٰذا نواز شریف کے لیے یہ کام مزید آسان ہوگیا تھا۔

مگر ان کا اندازہ غلط نکلا اور وہ جنرل مشرف کے ہاتھوں اقتدار سے ہٹا دیے گئے۔ نواز شریف کو جیل میں بند کردیا گیا، سزا سنائی گئی اور پھر ملک سے باہر بھیج دیا گیا۔ نواز شریف کا تعلق مضبوط رشتوں میں بندھے ہوئے ایک ایسے خاندان سے تھا جس میں آخری فیصلہ گھر کا بڑا مرد ہی کیا کرتا تھا، ایسے میں اپنے والد کو کھونے اور پھر ان کی آخری رسومات میں شریک نہ ہوپانے پر انہیں گہرا صدمہ پہنچا ہوگا۔

اسی عرصے میں ان کی سیاسی سوچ بالغ ہوتی نظر آتی ہے اور انہوں نے ماضی کی حماقتوں سے جان چھڑانے کے لیے بینظیر بھٹو کے ساتھ میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیا۔ جب 2007ء میں بینظیر بھٹو کا قتل ہوا تو انہوں نے فوراً راولپنڈی کے ہسپتال کا رخ کیا جہاں پیپلزپارٹی کی رہنما کو تشویشناک حالت میں لایا گیا تھا۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں ایک دوسرے کے روایتی حریف اور زہرِ قتل بنے ہوئے نواز شریف دسمبر کی اس سرد شام پیپلزپارٹی کے جیالوں کے ساتھ غم منا رہے تھے اور دلاسہ دے رہے تھے۔

بے رنگ چہرے کے ساتھ وہ غم میں نڈھال نظر آئے۔ کئی جیالوں نے انہیں مضبوطی سے تھاما اور ان کے کندھے پر سر رکھ کر روئے۔

جب 1999ء میں ان کا اقتدار ختم ہوا تو ان کی کوشش تھی کہ وہ تمام اختیارات اپنے پاس رکھیں اور سیاسی مخالفین کو بھرپور سبق سکھائیں مگر جب وہ 2013ء میں ایک بار پھر وزیرِاعظم بنے تو وہ بالکل ایک نئی شخصیت کے مالک نظر آئے۔ انہوں نے کوئی رکاوٹ کھڑی کیے بغیر خیبر پختونخوا کی حکومت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حوالے کردی جس نے وہاں بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی۔ حالانکہ وہاں ان کی اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بناسکتی تھی۔ اسی طرح انہوں نے پیپلزپارٹی کی طرح میڈیا کو جمہوری معاشروں کے تقاضوں کے مطابق آزادی سے کام کرنے دیا۔

مگر پیپلز پارٹی کی جانب سے قومی ادارہ احتساب کے وسیع و بے تحاشا اختیارات کو کم کرنے سے متعلق پیش کی گئی تجویز کو ٹھکرانے کے بعد ان کے اپنے اور اپنے خاندان کے سر پر مسلسل خطرے کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ان کی جماعت کے دیگر سیاستدان اور پیپلزپارٹی کے دیگر رہنما بھی مسلسل خائف رہنے لگے ہیں۔

لیکن اس کے باوجود بھی یہ گمان کرنا بچکانہ حرکت ہوگی کہ دیگر طریقے اپوزیشن کو ڈرانے کے لیے نہیں تھے۔ ایک سیاستدان ہو، یا پھر 3 یا اس سے زائد بار وزیرِاعظم رہ چکا ہو یا پھر صدر ہو اگر وہ حقیقی طاقتوں کے خلاف ایک قدم بھی لیتا ہے تو پھر اس کے پاس گنتی کے دن رہ جاتے ہیں۔

یہ ماننا بھی بچکانہ حرکت ہوگی کہ ایک تجربہ کار سویلین سیاستدان کو فطری جبلت اور دُور اندیشی کے معاملے میں انہی سیاسی صفات کی خواہاں قوتیں چت کرسکتی ہیں۔ اکتوبر 2016ء کو ملک کو لاحق خطرات کے پیش نظر نواز شریف نے آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کو طلب کیا اور ملاقات کی۔

ملاقات میں شدت پسند گروہوں کی ملکی معاونت کے باعث دنیا میں بڑھتی ہوئی تنہائی پر دفترِ خارجہ کے ماہرین نے بریفنگ دی۔ وزیرِاعظم نے وہاں موجود افسران کو ہدایت دی کہ اس صورتحال سے ترجیحی بنیادوں پر نمٹا جائے لیکن جیسے ہی یہ خبر ذرائع ابلاغ کے ذریعے منظرِ عام پر آئی تو قیامت سی برپا ہوگئی۔

ناراض اسٹیبلشمنٹ نے اسے اپنی توہین سمجھا۔ اس کے بعد کیا ہوا اس کا سارا ریکارڈ موجود ہے لیکن ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹنگ کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے، اس کے باوجود بھی کوئی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ انہوں نے جو سمجھا غلط سمجھا تھا۔

ایک شخص جس نے سویلین بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی تھی وہ آج زندگی کی مشکل جنگ لڑ رہا ہے اور ان کا مکمل طور پر صتحیاب ہونا کافی مشکل نظر آتا ہے۔ ہم بس ان کی مکمل صحت اور تندرستی کی دعا کرسکتے ہیں۔

لیکن ساتھ یہ پوری امید بھی ہے کہ حکمرانوں کو جلد یہ احساس ہوجائے گا کہ انہوں نے پنجاب کو اپنا بھٹو دے دیا ہے۔


یہ مضمون 27 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

عباس ناصر

عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abbas.nasir@hotmail.com ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

’میں استعفیٰ نہیں دوں گا‘، اتنی جلدی ردِعمل کون دیتا ہے بھلا؟

میاں صاحب آپ ہیرو بن سکتے تھے

اگر مولانا فضل الرحمٰن اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تو؟