نقطہ نظر

کھیتوں اور باغوں کی زمین کھاروچھان، جسے سمندر بے دردی سے کھا گیا

کہتےہیں کہ جب دریائے سندھ اپنی مرضی سے بہتا تھا تو ساری ڈیلٹائی پٹی انتہائی ذرخیز ہواکرتی تھی کہ دھان قدآدم تک لمبی ہوتی

کھاروچھان: پیاس اور پانی سے ڈوبتا جزیرہ

تحریر و تصاویر: ابوبکر شیخ

میں جب ابراہیم حیدری سے نکلا تب گرمیوں کی ٹھنڈی رات کا آخری پہر الوداع کہہ چکا تھا۔ مؤذن اذانین دے کر نمازیوں کو مسجد آنے کی دعوت دے چکے تھے۔

سمندر کی وجہ سے ابراہیم حیدری کی گلیوں میں اوس کی نمی تھی اور تاحدِ نظر اوس کی ہلکی دھند کی ایک تہہ بچھی تھی۔ ہمارا فطرت سے لاکھوں کروڑوں سال دوستی کا ساتھ رہا ہے اس لیے یہ مناظر ہمیں بھلے لگتے ہیں۔ کچھ لوگ ہوٹلوں پر گرما گرم چائے کی چسکیاں لیتے اور کچھ اپنے پھیپھڑوں میں صبح کی تازہ ہوا کی جگہ سگریٹ کا دھواں بھرتے نظر آئے۔ ہزاروں چیلیں تھیں جو سوکھتی مچھلی کی وافر مقدار میں موجودگی کے سبب آلسی بن گئی تھیں۔ خوراک کھاتیں اور بجلی کی تاروں پر بیٹھ جاتیں۔ میں نے جب قائدآباد چھوڑا تو مشرق پر پھیلی لالی مزید گاڑھی ہوگئی اور طلوع آفتاب کے ساتھ ایک نئے دن کی ابتدا ہوگئی۔

میں جب گھارو کے قریبی شہر کے ہوٹل سے کھانا کھا کر اور 2 کپ چائے اُنڈیل کر باہر نکلا تو رات والی ٹھنڈک غائب ہوچکی تھی۔ اس دن ہماری منزل کھارو چھان تھی، لہٰذا ہم جیسے ہی گھارو سے جنوب کی طرف بڑھے تو سامنے شاندار اور قدرے وسیع راستہ بچھا ہوا تھا۔

کسی نے بتایا کہ یہ راستہ ’ذوالفقار آباد‘ کے لیے بنایا گیا ہے اور اس کو ’گھارو کیٹی بندر ہائی وے‘ کہا جاتا ہے۔ راستے کے دونوں اطراف آپ کو ترقی نظر آئے گی۔ میں جب میرپور ساکرو، بُہارا، گاڑھو سے ہوتا ہوا ’بگھان‘ پہنچا تو ہائی وے نے ہمارا گاڑھو میں ساتھ چھوڑ دیا، جس کے بعد خوب ہچکولے کھاتے ہم ’بگھان‘ پہنچے۔ یہ شاید اس طرف یعنی جنوب کی طرف آخری چھوٹا سا شہر ہے۔ اس شہر سے ایک راستہ جنوب مغرب میں نکلتا ہے، اگر آپ اس راستے پر گامزن ہوئے تو کیٹی بندر پہنچ جائیں گے جبکہ جنوب میں نکلنے والی ٹوٹی پھوٹی سڑک کے مسافر بنیں گے تو آپ کو وہ کھارو چھان لے جائے گی۔

آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے جاتے ہیں تو راستے کے کنارے دیویوں (Mesquite Trees) اور خاموشیوں کے جنگل ہیں۔ ساتھ میں ویرانی کا ایک احساس ہے جو کسی آم کے پرانے اور بے رنگ پیڑ کی طرح آپ کے اندر میں اگ پڑتا ہے۔ جس پر امید کی کوئی ہری پتی نہیں اگتی، بس دن کو دھوپ اور رات کو اُلّو اس ٹنڈمنڈ درخت پر بسیرا کرتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں، جب دریائے سندھ اپنی مرضی سے بہتا تھا تو یہ ساری ڈیلٹائی پٹی انتہائی ذرخیز ہوا کرتی تھی کہ دھان قدآدم تک لمبی ہوتی۔ دھان اور جھیلوں کی وجہ سے گھاس زیادہ ہوتی یوں دودھ کی بھی فراوانی تھی۔ کوئی مہمان آتا تو اسے پانی کے بجائے دودھ یا چھاچھ پیش کی جاتی، بڑے ہی شاندار دن تھے۔

ان گزرے دنوں کو کوئی صدیاں نہیں گزریں کہ لوگوں کو یاد نہ ہوں۔ اس سفر میں میرا ہمسفر عبداللہ مُرگھر اسی راستے پر واقع ایک گاؤں کا باسی ہے، اس نے بتایا کہ ’1970ء کے بعد پانی میں کمی آنا شروع ہوئی تھی۔‘

گرمیوں کی دوپہر میں کھارو چھان کے 2 باسی پیڑ تلے بیٹھے ہیں

پانی کی اس قلت کی حقیقت کو کتاب Empires of the Indus کی مصنفہ Alice Albinia نے بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں، ’1958ء میں کوٹری بیراج مکمل ہونے کے بعد 3500 کلومیٹرز پر پھیلی انڈس ڈیلٹا 250 کلومیٹر تک سُکڑ گئی، سمندر میں پانی کا جانا بالکل کم ہوگیا، میٹھے پانی کی کمی کی وجہ سے تیمر کے جنگلات اجڑ گئے، چاول کی فصلیں دینے والی زمینیں سفید نمک میں بدل گئیں، کاشتکاروں کے پاس مچھلی کے شکار کے سوا اور کوئی چارہ نہ بچا۔‘

12 کلومیٹر کی ڈرائیو کے بعد ہم ایک گھاٹ پر پہنچے جہاں سے ہمیں بذریعہ کشتی کھارو چھان جزیرے تک پہنچنا تھا۔ باہر دھوپ تھی اور ہوا میں نمکین نمی تھی جو ایک ہی وقت میں آپ کو ہلکی ٹھنڈک اور گرمی کا ملا جُلا احسان دلاتی ہے۔ میں حیران تھا کیونکہ 2006ء میں جب ایک تحقیقی کام کے مقصد سے یہاں آیا تھا تب یہیں پر ایک شاندار گھاٹ دیکھنے کو ملا تھا مگر ان 13 برسوں میں بہت کچھ تبدیل ہوچکا تھا۔

کھارو چھان

سمندر کھارو چھان کو کھاتا جا رہا ہے

’جس گھاٹ پر آپ آئے تھے وہ کب کا سمندر کے گہرے پانیوں میں گم ہوگیا۔ سمندر کی چڑھائی کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ کسی چینی ڈریگن کی طرح یہ سب کچھ نگلتا جا رہا ہے۔ گھاٹ، زمینیں، جنگل اور ہمارا وہ گاؤں جو اس گھاٹ سے کچھ کلومیٹر دُور ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو اگلے 5 سے 8 برسوں میں ہمارا گاؤں بھی سمندر کھا جائے گا‘، عبداللہ مُرگھر جو اپنے گاؤں کی معزز شخصیت ہیں اور اپنی ان زمینوں کے مالک ہیں جن پر کبھی ذرخیزی تھی اور آج دھیرے دھیرے سمندر کا شوریدہ پانی ان سے ذرخیزی چھین رہا ہے۔ اس گفتگو کے دوران عبداللہ کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور وہ بار بار پیشانی پر پھوٹے پسینے کے قطروں کو پونچھتے جارہے تھے۔

ہم جب کشتی پر سوار ہوئے تو سمندر میں ہوا کی وجہ سے شور تھا اور جولانی تھی۔ سمندر کا پانی دریائے سندھ کے قدیم بہاؤ میں سے بہتا۔ ویسے صدیاں بیت گئیں، بہت کچھ تبدیل ہوگیا مگر کھاروچھان جانے کا راستہ وہی رہا۔ کئی برس پہلے جب یہاں سے دریائے سندھ کا مٹیالا میٹھا پانی شان و شوکت سے بہتا تھا تب بھی کھاروچھان جزیرہ وجود رکھتا تھا اور لوگ کشتیوں پر وہاں جاتے تھے۔ بس اب فرق یہ آیا ہے کہ پہلے میٹھا اور ’زندگی بخش‘ پانی کھاروچھان کے ارد گرد بہتا تھا اور اب ’زندگی کش‘ شوریدہ پانی اس بدنصیب جزیرے کے اردگرد چنگھاڑتا ہے۔

ہم جب 40 منٹ بعد کھاروچھان کے گھاٹ پر پہنچے تو سمندر کا شور دُور رہ گیا۔ میرے ذہن میں 2006ء کے کھاروچھان کی تصویر تیر آئی تھی۔ جہاں کے ایک چھوٹے بازار میں 40 دکانیں تھیں۔ نائی کی دکان تھی جس میں نائی بڑے مزے سے لکڑی اور گارے سے بنی ٹھنڈی دکان میں حجامت کرتا تھا۔ گدھا گاڑی پر پانی نزدیک بنے تالابوں سے لاکر دکانوں اور گھروں تک پہنچایا جا رہا تھا۔ چائے کا ہوٹل تھا، پان کی چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں، میں بازار گھوم کر پسینے سے شرابور ہوچکا تھا اور پھر ہسپتال کا رخ کیا۔

2006ء میں کھارو جھان کو جاتی کشتی کی لی گئی ایک تصویر

یہ کھاروچھان کا واحد ہسپتال تھا۔ صاف ستھرا اور ہوادار۔ ڈاکٹر شاید دوپہر کے کھانے کے لیے گھر گیا ہوا تھا۔ ابھی میرا پسینہ خشک بھی نہیں ہوا تھا کہ چائے آگئی۔ پتا چلا کہ ڈاکٹر صاحب نے بھجوائی ہے۔ جہاں فاصلے کم ہوتے ہیں وہاں کسی کی آمد کی خبریں خوشبو کی طرح پھیل جاتی ہیں۔ یوں سمجھیے کہ اس دن میری یعنی ایک نئے آدمی کی آمد کی خبر اس چھوٹے سے شہر کے ہر باسی تک پہنچ چکی تھی۔ میں نے چائے کی آخری چسکی ہی لی تھی کہ ڈاکٹر صاحب آگئے۔ سفید بال، طویل القامت اور لب و لہجے میں شفقت اور محبت ایسے بہتی جیسے رہٹ کی لوٹیوں سے ٹھنڈا اور میٹھا پانی گرتا اور بہتا ہے۔

’ڈاکٹر غلام محمد کھٹی۔‘ ڈاکٹر نے اپنا تعارف کرایا۔

’گزرے وقتوں میں کیسا تھا کھاروچھان؟‘

’لاجواب اور خوبصورت۔ یہ اپنے وقت میں باغوں اور دھان کی مختلف جنسوں کی وجہ سے بہت مشہور جزیرہ تھا اور جہاں لہلہاتے کھیت کھیلیان اور باغات ہوں وہ یقیناً ایک خوبصورت علاقہ ہی ہوگا۔ یہاں ’سگداسی‘، ’رتڑیوں‘ اور ’جیراشاہی‘ کی مشہور چاول کی جنسیں بوئی جاتی تھیں، اس کے علاوہ اناروں، کیلوں، آموں اور امرود کے باغات بھی موجود تھے جن کی مارکیٹ کراچی تھی۔ گھاٹ آباد تھے اور اچھی آمد و رفت کے سلسلے کی وجہ سے معاشی حالات بھی خوشگوار تھے۔ ہمارے شمال مشرق میں ’سجن واری‘ مغرب میں ’کیٹی بندر‘ بھی انتہائی ذرخیز آبادیاں تھیں۔ یہاں چاول صاف کرنے کی ایک چھوٹی مل بھی تھی اور 1937ء میں جب برٹش حکومت تھی تب یہاں ایک پولیس تھانہ بھی بنا تھا اور 2 پولیس والے یہاں کے تھانے کا اسٹاف تھا۔ لاکپ بھی تھا مگر یہاں ایک بھی ایف آئی آر داخل نہیں ہوئی۔ بڑا ہی امن و سکون اور محبت بھرا ماحول تھا۔‘

چند برسوں میں کھارو چھان کافی تبدیل ہوچکا ہے

ڈاکٹر صاحب نے میرے ذہن میں یہاں کے خوشحال ماضی کی ایک تصویر بُن دی تھی۔

’اور اب کے شب و روز کیسے گزرتے ہیں؟‘

’اب گزرے وقتوں کی کوئی نشانی نہیں بچی۔ دریائے سندھ کے میٹھے پانی کی جگہ سمندر نے لے لی ہے۔ اب میٹھا پانی تب آتا ہے جب ملک میں زیادہ بارشیں ہوں اور جب پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ختم ہونے پر کوٹری سے نیچے پانی چھوڑا جاتا ہے تب ہمارے ہاں پانی پہنچتا ہے۔ ہم اپنے پانی کے تالاب بھر لیتے ہیں۔ اگر اوپر سے میٹھا پانی نہ آئے تو بارشوں کے موسم میں آسمان پر آنکھیں گاڑے بیٹھے ہوتے ہیں کہ بارش آئے تو ہم اپنے تالاب بھر سکیں۔ پھر جب بالکل بھی پانی نہ ہو تو ہینڈ پمپ یا چھوٹے چھوٹے کنویں کھود کر پینے کا پانی حاصل کرتے ہیں۔ زمینیں تو اب نام کی آباد ہوتی ہیں۔ لوگ سمندر سے مچھلی کا شکار کرکے یا کیکڑے پکڑ کر گزارا کرتے ہیں۔ اب ایسی حالت میں انسان زیادہ نہیں رہ سکتا۔ سمندر مسلسل اس جزیرے کو کاٹ رہا ہے اور روز بروز یہ جزیرہ سمندر کے پیٹ میں جا رہا ہے۔ لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔‘

ڈاکٹر صاحب سے اس دن خوب گفتگو ہوئی۔ پھر ایک یا 2 برس بعد وہ مجھے ابراہیم حیدری کی گلیوں میں ملے۔ وہ کھاروچھان سے نقل مکانی کر آئے تھے اور ’ریڑھی میان‘ میں رہنے لگے تھے۔ چند برس بعد وہ دنیا سے ہی کوچ کرگئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ اپنے وجود کی جو جڑ کھاروچھان سے اکھاڑ کر یہاں ریڑھی میں لائے تھے وہ وہاں کی زمین میں خود کو پیوست ہی نہ کرپائی اور جڑوں کے بغیر زندگی کا درخت دنیا کی ان تیز جھکڑوں میں زیادہ وقت تک باقی نہیں رہ پاتا۔

کھارو چھان میں اب چند خاندان ہی رہائش پذیر ہیں

آج میں 13 برس بعد ایک بار پھر کھاروچھان آیا تھا۔ اب 13 برس کوئی اتنا زیادہ عرصہ تو نہیں ہوتا۔ مگر جیسے ہی میں اس چھوٹے قصبے کے بازار میں داخل ہوا تو مجھے لگا کہ جیسے 13 برس نہیں 13 صدیاں گزر چکی ہیں۔ سب کچھ اُجڑ گیا تھا۔ 7 یا 8 برائے نام دکانیں موجود تھیں۔ پانی بردار گدھا گاڑی کے لکڑی سے بنے پہیوں کی آواز ویرانیوں میں اور بھی صاف سنائی دے رہی تھی۔ جہاں کسی وقت میں ہزاروں خاندان بستے تھے وہاں آج چند خاندانوں نے ہی اپنے آنگن بسائے ہوئے ہیں۔

پانی بردار گدھا گاڑی کے لکڑی سے بنے پہیوں کی آواز ویرانیوں میں اور بھی صاف سنائی دے رہی تھی

گلاب شاہ نامی مقامی سماجی کارکن سے جب اس حوالے سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ’سمندر کا آگے بڑھنا، جزیروں کا ویران ہوکر برباد ہوجانا اس ڈیلٹائی پٹی کا بہت بڑا المیہ ہے۔ آپ تو پہلی بار 2006ء میں آئے تھے مگر میں تو 90ء کی دہائی سے اس جزیرے کو دیکھتا آیا ہوں۔ سچ پوچھیں تو اس جزیرے کے ویران ہونے کا بہت غم ہے۔ مگر ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ سرکار کی طرف سے مٹی کا بند دیا گیا ہے کہ اس کا بچاؤ ہوسکے مگر مٹی کا بند سمندر کے آگے کتنے دن باقی رہ سکتا ہے؟ ان جزیروں کو اگر بچانا ہے تو میٹھے پانی کی فراہمی کے ساتھ حکومت کو سنجیدہ پلاننگ کے ذریعے ان حالات پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو 7 برس بعد شاید یہ جزیرہ اپنا وجود ہی کھودے گا۔ سمندر اسے بھی کھا جائے گا۔‘

میں نے وہاں کے حفیظ میربحر سے پوچھا کہ یہ چند خاندان جو یہاں قیام پذیر ہیں، ان کا گزر بسر کیسے چلتا ہے تو اس نے جو جواب دیا تھا اس کا لب لباب تقریباً یہی تھا کہ گزارا کیکڑے اور مچھلی پکڑ کر کرتے ہیں اور یہ اب یہاں بالکل بھی رہنا نہیں چاہتے کیونکہ نمک کی ڈلی کی طرح گھلتی زمین میں کون نیم کا پیڑ لگانا چاہے گا؟ مگر مجبور ہیں۔ آپ کو پتا ہے کہ نقل مکانی کیا ہوتی ہے؟ یہ وہ عمل ہے جو خوشی سے کوئی نہیں کرتا۔ اپنے پُرکھوں کے آنگن چھوڑ کر کون جانا چاہتا ہے۔ مگر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کے لیے زیادہ پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔ یہ یہاں سے جائیں تو کہاں جائیں؟ جہاں جائیں گے وہاں سر چھپانے کے لیے 4 لکڑیوں اور اینٹوں کا خرچہ تو ہوگا۔ وہ کہاں سے لائیں گے یہ لوگ؟ یہاں سے دوسری جگہ پہنچنے کے لیے کشتی اور گاڑی کا کرایہ کہاں سے لائیں گے۔ جو خاندان یہ سب کرسکتے تھے وہ کب کے چلے گئے۔ اب یہاں جو خاندان بچے ہیں وہ معاشی طور پر اتنے کمزور ہیں کہ یہ سب کچھ برداشت نہیں کرسکتے۔‘

جہاں زندگی کی راہیں ایک بند گلی میں آکر رُک جائیں اور نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو، ایسی بے کسی اور بیچارگی کی کیفیت وہی بہتر جانتے ہیں جن پر گزرتی ہے۔ میں نے کھاروچھان کی ان اجڑتی گلیوں میں چلتے ہوئے جب پاکستان فشر فوک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ سے اس حوالے سے پوچھا تو جواب آیا ’کھاروچھان کے جزیرے کا سمندر بُرد ہونا ایک دکھ دینے والی خبر ہے مگر گزشتہ 50 برسوں میں جو کچھ ڈیلٹا کے ساتھ کیا گیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں ہے۔ میں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں، یکم مارچ 2015ء کو ہم نے ’سجن واری‘ میں کھاروچھان گھاٹ پر پروگرام کیا تھا۔ اب اگر آپ اس جگہ پر جائیں گے تو وہ جگہ سمندر بُرد ہوچکی ہے۔ یعنی 5 برس قبل جب ہم یہ پروگرام کر رہے تھے تو یقین کریں میرے ذہن کے کسی بھی کونے میں یہ بات نہیں تھی کہ 5 سال کے عرصے میں یہ اتنا بڑا میدان سمندر کی نذر ہوجائے گا۔ اور کیوں نہ ہو فطرت نے ہم کو جو کچھ بھی لاکھوں برسوں میں بنا کر دیا تھا ہماری نام نہاد ترقی نے اسے 50 برسوں میں برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ اب بیراج بنانے کی پھر ایک نئی کہانی شروع ہوئی ہے۔ جس کا سیدھا سا مقصد یہ ہے کہ جو تھوڑا بہت پانی سمندر میں جا رہا ہے اس کو بھی بند کردیا جائے۔ فطرت سے ایسی دشمنی میں نے کہیں نہیں دیکھی اور فطرت کے راستوں کو اگر آپ بیراجوں اور ڈیموں میں قید کریں گے تو نتیجہ ایسا ہی نکلنا ہے۔‘

کاروچھان کے مچھیرے

میں پانی کے تالابوں اور خاموشی کے جالوں میں گھری چند خستہ حال دکانوں کے بازار سے چلتا ہوا جب اس جگہ پر آیا جہاں 13 برس پہلے میں نے ڈاکٹر صاحب سے دل کھول کر گفتگو کی تھی تب وہاں چند ٹوٹی لکڑیوں اور ہسپتال کی چند نشانیوں کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ میں نے ماضی کی اس دوپہر کو یاد کیا اور ڈاکٹر صاحب کے بلند درجات کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ میں سر کو جھکائے ہوئے تھکے قدموں سے گھاٹ کی طرف چل پڑا جہاں کشتی ہمارے انتظار میں تھی۔ میں نے گھاٹ سے کھاروچھان کو آخری بار دیکھا۔ جہاں کبھی باغات تھے اور دھان کی فصلیں تھیں مگر اب پینے کا میٹھا پانی بھی دستیاب نہیں ہے جبکہ شوریدہ پانی طاقتور لہروں سے اس جزیرے کو اپنے اندر سمانے کے لیے سرگداں ہے۔

مجھے یقین سا ہوچلا تھا کہ دوسری بار جب میں یہاں آؤں گا تو یہ زمین میرے پاؤں تلے نہیں ہوگی۔ میں عبداللہ مُرگھر کی پریشانی اور دکھ کو اپنے اندر محسوس کرتا تھا کہ اس کا ایک بھائی ان حالات کی وجہ سے نقل مکانی کرچکا ہے۔

کئی خاندان کھارو چھان سے نقل مکانی کرچکے ہیں

عبداللہ بھی ایک یا 2 برس بعد سب کچھ بیچ باچ کر چلا جائے گا، پھر 8 برس کے بعد جب میں اس سے کسی شہر میں ملوں گا تو اس کی آنکھیں بھیگیں گی اور اس کے پاس اپنی زمینوں میں اگتی دھان، وہاں کے جاڑوں اور گرمیوں کے موسموں کی یادوں کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

دعا ہے کہ یہاں دن کچھ ایسے بدلیں کہ عبداللہ کو نقل مکانی نہ کرنی پڑے کیونکہ دوسرے شہروں میں انسانی وجود کی جڑیں بمشکل ہی خود کو پیوست کرپاتی ہیں۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔