کھیتوں اور باغوں کی زمین کھاروچھان، جسے سمندر بے دردی سے کھا گیا
کھاروچھان: پیاس اور پانی سے ڈوبتا جزیرہ
تحریر و تصاویر: ابوبکر شیخ
میں جب ابراہیم حیدری سے نکلا تب گرمیوں کی ٹھنڈی رات کا آخری پہر الوداع کہہ چکا تھا۔ مؤذن اذانین دے کر نمازیوں کو مسجد آنے کی دعوت دے چکے تھے۔
سمندر کی وجہ سے ابراہیم حیدری کی گلیوں میں اوس کی نمی تھی اور تاحدِ نظر اوس کی ہلکی دھند کی ایک تہہ بچھی تھی۔ ہمارا فطرت سے لاکھوں کروڑوں سال دوستی کا ساتھ رہا ہے اس لیے یہ مناظر ہمیں بھلے لگتے ہیں۔ کچھ لوگ ہوٹلوں پر گرما گرم چائے کی چسکیاں لیتے اور کچھ اپنے پھیپھڑوں میں صبح کی تازہ ہوا کی جگہ سگریٹ کا دھواں بھرتے نظر آئے۔ ہزاروں چیلیں تھیں جو سوکھتی مچھلی کی وافر مقدار میں موجودگی کے سبب آلسی بن گئی تھیں۔ خوراک کھاتیں اور بجلی کی تاروں پر بیٹھ جاتیں۔ میں نے جب قائدآباد چھوڑا تو مشرق پر پھیلی لالی مزید گاڑھی ہوگئی اور طلوع آفتاب کے ساتھ ایک نئے دن کی ابتدا ہوگئی۔
میں جب گھارو کے قریبی شہر کے ہوٹل سے کھانا کھا کر اور 2 کپ چائے اُنڈیل کر باہر نکلا تو رات والی ٹھنڈک غائب ہوچکی تھی۔ اس دن ہماری منزل کھارو چھان تھی، لہٰذا ہم جیسے ہی گھارو سے جنوب کی طرف بڑھے تو سامنے شاندار اور قدرے وسیع راستہ بچھا ہوا تھا۔
کسی نے بتایا کہ یہ راستہ ’ذوالفقار آباد‘ کے لیے بنایا گیا ہے اور اس کو ’گھارو کیٹی بندر ہائی وے‘ کہا جاتا ہے۔ راستے کے دونوں اطراف آپ کو ترقی نظر آئے گی۔ میں جب میرپور ساکرو، بُہارا، گاڑھو سے ہوتا ہوا ’بگھان‘ پہنچا تو ہائی وے نے ہمارا گاڑھو میں ساتھ چھوڑ دیا، جس کے بعد خوب ہچکولے کھاتے ہم ’بگھان‘ پہنچے۔ یہ شاید اس طرف یعنی جنوب کی طرف آخری چھوٹا سا شہر ہے۔ اس شہر سے ایک راستہ جنوب مغرب میں نکلتا ہے، اگر آپ اس راستے پر گامزن ہوئے تو کیٹی بندر پہنچ جائیں گے جبکہ جنوب میں نکلنے والی ٹوٹی پھوٹی سڑک کے مسافر بنیں گے تو آپ کو وہ کھارو چھان لے جائے گی۔
آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے جاتے ہیں تو راستے کے کنارے دیویوں (Mesquite Trees) اور خاموشیوں کے جنگل ہیں۔ ساتھ میں ویرانی کا ایک احساس ہے جو کسی آم کے پرانے اور بے رنگ پیڑ کی طرح آپ کے اندر میں اگ پڑتا ہے۔ جس پر امید کی کوئی ہری پتی نہیں اگتی، بس دن کو دھوپ اور رات کو اُلّو اس ٹنڈمنڈ درخت پر بسیرا کرتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں، جب دریائے سندھ اپنی مرضی سے بہتا تھا تو یہ ساری ڈیلٹائی پٹی انتہائی ذرخیز ہوا کرتی تھی کہ دھان قدآدم تک لمبی ہوتی۔ دھان اور جھیلوں کی وجہ سے گھاس زیادہ ہوتی یوں دودھ کی بھی فراوانی تھی۔ کوئی مہمان آتا تو اسے پانی کے بجائے دودھ یا چھاچھ پیش کی جاتی، بڑے ہی شاندار دن تھے۔
ان گزرے دنوں کو کوئی صدیاں نہیں گزریں کہ لوگوں کو یاد نہ ہوں۔ اس سفر میں میرا ہمسفر عبداللہ مُرگھر اسی راستے پر واقع ایک گاؤں کا باسی ہے، اس نے بتایا کہ ’1970ء کے بعد پانی میں کمی آنا شروع ہوئی تھی۔‘