تاہم سینٹرل پنجاب کے کپتان کی حیثیت سے بابر اعظم نے اپنی جگہ قربان کرنے کے بجائے بطورِ اوپنر کھیلنے کو ترجیح دی اور کامران اکمل کو تیسرے نمبر پر کھیلنا پڑا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ کھلاڑی اچھی کارکردگی پیش کرسکے اور ٹیم کی صورتحال تو یہ رہی کہ یہ صرف ایک میچ ہی جیت سکی جو احمد شہزاد کی ناقابلِ شکست سنچری کی وجہ سے ملی۔
گوکہ بابر اعظم نے ایونٹ میں بلّے سے چند اچھی اننگز ضرور کھیلیں لیکن وہ ٹیم میں موجود ایک کھلاڑی سے اس کی افادیت کے مطابق کام لینے میں ناکام رہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر بابر اعظم ایک ڈومیسٹک ٹی20 ٹیم کے کپتان ہوتے ہوئے ایک کھلاڑی کو اس کی افادیت کے مطابق کھلانے سے قاصر ہیں تو کیا وہ قومی ٹیم میں انٹرنیشنل کرکٹ کے شدید دباؤ میں کھلاڑیوں کے ساتھ انصاف کر پائیں گے؟
بابر اعظم پاکستانی ٹیم کے سب سے بہترین اور مستقل مزاجی سے اسکور کرنے والے بلے باز ہیں تاہم سوال یہ ہے کہ کیا وہ انٹرنیشنل کرکٹ میں قیادت کے بوجھ کو برداشت کرتے ہوئے اپنی عمدہ کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھ پائیں گے؟
تاریخ شاہد ہے کہ کرکٹ میں بڑے بڑے بلے باز آئے اور اپنی شاندار کارکردگی سے اپنی ٹیم کو فتوحات سے ہمکنار کرایا لیکن جب کبھی ان پر قیادت کا بوجھ پڑا تو وہ نہ اچھے کپتان ثابت ہوسکے اور نہ ان کی کارکردگی میں تسلسل قائم رہا۔
اس کی سب سے بڑی مثال سچن ٹنڈولکر، راہول ڈراوڈ، برائن لارا، ظہیر عباس اور دیگر متعدد کھلاڑی ہیں جو قیادت کا بوجھ برداشت نہ کرسکے اور تنازعات کا شکار ہوکر اپنے منصب سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگئے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بورڈ ابھی سرفراز احمد کی زیرِ نگرانی بابر کو محدود اوور کی کرکٹ میں قیادت کے لیے تیار کرتا تاکہ وہ کچھ تجربہ حاصل کرکے بہتر طور پر یہ ذمہ داری انجام دے پاتے۔ لیکن اچانک ہی اتنی بڑی ذمہ داری دینے سے یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ وہ شاید دباؤ کو برداشت نہ کرسکیں۔
دورہ آسٹریلیا قومی ٹیم کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ سری لنکا کے خلاف شکست کے بعد فتح اعتماد کو بڑھانے کا سبب بنے گی، لیکن اگر یہاں بھی شکست ہوئی تو ٹیم تو دباؤ کا شکار ہوگی ہی مگر بابر کے اپنے کھیل پر بھی منفی اثرات پڑ سکتے ہیں، اور موجودہ صورتحال میں ٹی20 ورلڈ کپ سے قبل بابر اعظم کی ناکامی قومی ٹیم میں ایک بڑے بحران اور تنازع کو جنم دے سکتی ہے کیونکہ اس صورت میں سوال یہ پیدا ہوگا کہ قومی ٹیم کا اگلا کپتان کون ہوگا یا یہ کہ اگلا کپتان کون کون ہوسکتا ہے؟
جی ہاں، بابر اعظم کی زیرِ قیادت ٹیم کی ناکامیوں کے بعد قیادت کے لیے کئی دعویدار سامنے آسکتے ہیں اور شاید اس خطرے کو دیکھتے ہوئے شعیب ملک اور محمد حفیظ کو ٹی20 ٹیم میں نہیں رکھا گیا حالانکہ مختصر فارمیٹ میں ان دونوں کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔
تاہم سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح پی سی بی آنے والے ممکنہ طوفان کا رخ بدل سکے گا؟ پلیئر پاور کے سامنے ہمیشہ ڈھیر ہونے والا کرکٹ بورڈ نوجوان کھلاڑیوں کی بغاوت کی صورت میں آخر کیا فیصلہ کرے گا کیونکہ اس وقت نوجوان ٹیم میں قیادت کے کئی دعویدار موجود ہیں جو مختلف سطح پر اس منصب پر فائز ہیں۔
پاکستان کرکٹ میں کھلاڑیوں کی جانب سے کپتان کے خلاف بغاوت کے قصے زبان زدِ عام ہیں اور وہ وقت کون بھول سکتا ہے جب بڑے بڑے ناموں کے خلاف کھلاڑیوں نے علم بغاوت بلند کرتے ہوئے ان کی قیادت کا تختہ الٹ دیا تھا۔
جاوید میانداد کو 2 مرتبہ بغاوت کا سامنا کرنا پڑا لیکن 1993ء میں ان کے خلاف دوسری مرتبہ ہونے والی بغاوت اور وسیم اکرم کو کپتان بنائے جانے کے بعد پاکستان کرکٹ کو کافی نقصان پہنچا اور یہ وہ دور تھا جب ٹیم میں موجود تمام 11 کھلاڑی خود کو قیادت کے منصب کا اہل اور اس کی تگ و دو میں مصروف نظر آئے۔
اسی طرح 2009ء میں سینئر اور جونیئر کھلاڑیوں نے یونس خان کے خلاف بغاوت کردی تھی جس کے بعد قیادت کی میوزیکل چیئر کا کھیل کافی عرصے تک جاری رہا تھا اور اس منفی عمل کا نتیجہ کچھ عرصے بعد 2010ء کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کی صورت ہمارے سامنے آیا تھا جب خود ٹیم کے کپتان سلمان بٹ نے اس گھناؤنے جرم کو انجام دیا لیکن ان تمام تر چیزوں کے باوجود ہمارے بورڈ نے ماضی سے سبق نہ سیکھنے کی روایت کو پھر سے زندہ کیا اور ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا۔
موجودہ ٹیم پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں قیادت کے لیے کئی کھلاڑی موزوں نظر آتے ہیں جن میں سرِفہرست عماد وسیم ہیں جو پاکستان سپر لیگ میں کراچی کنگز کی قیادت کرتے ہیں اور بابر اعظم ان کے زیرِ سایہ کھیلتے ہیں۔ پھر نیشنل ٹی20 میں انہیں کی قیادت میں ناردرن پنجاب نے ایونٹ بھی اپنے نام کیا ہے۔
اسامہ افتخار
اسامہ افتخار ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔